Friday, March 29, 2024

اے پی سی اپوزیشن رہنمائوں کیخلاف مقدمات منطقی انجام تک پہنچنے کا نتیجہ تھی، وفاقی وزراء

اے پی سی اپوزیشن رہنمائوں کیخلاف مقدمات منطقی انجام تک پہنچنے کا نتیجہ تھی، وفاقی وزراء
September 21, 2020
اسلام آباد (92 نیوز) وفاقی وزراء شاہ محمود، شبلی فراز، اسد عمر اور فواد چودھری نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ کہا کہ اے پی سی اپوزیشن رہنمائوں کیخلاف مقدمات منطقی انجام تک پہنچنے کا نتیجہ تھی۔ وزیر اطلاعات شبلی فراز نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے فیصلہ کیا کہ اپوزیشن لیڈراور نوازشریف سمیت تمام سیاسی لیڈروں کی تقریر کو چلنے دیا جائے، مولانا فضل الرحمان کی تقریر ہم نے نہیں روکی تھی، فضل الرحمان کی تقریر پیپلزپارٹی نے روکی۔ آصف زرداری، بلاول بھٹو، نوازشریف سمیت کسی کی بھی تقریر کو روکا نہیں گیا، نوازشریف نے 2018ء کے الیکشن کو دھاندلی زدہ ثابت کرنے کی کوشش کی، نوازشریف ملک کے تین بار وزیراعظم رہے، اس لیے وہ الیکشن ٹھیک تھے۔ اس بار اگر وہ الیکشن میں حکومت نہیں بناسکے تو وہ سیخ پا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2013ء کے الیکشن میں تحریک انصاف نے 4 حلقے کھولنے کا کہا تھا، عمران خان نے کہا تھا اگر وہ چار حلقے ٹھیک ہوئے تو ہم آپ کی حکومت سے ہر طرح کا تعاون کریں گے، عدالتی حکم پر کمیشن بنایا گیا اور اس معاملے کی تحقیق ہوئی، 2013ء کے الیکشن میں 413 پٹیشنز الیکشن کمیشن کے پاس گئیں، ان الیکشن میں صرف 299 پٹیشز الیکشن کمیشن کے پاس گئیں، جن حلقوں پر اعتراض اٹھایا گیا ان کی تعداد صرف 90 تھیں۔ کم ازکم 16 ایسے حلقے تھے جن میں پی ٹی آئی کا امیدوار 3 ہزار ووٹ سے 195 ووٹوں تک کے مارجن سے ہارا۔ شبلی فرازکا کہنا تھا کہ ہم نے ان کا وطیرہ دیکھا ہے کہ جب چیزیں ان کی منشاء کے مطابق ہوں تو وہ ٹھیک ہے، جو الیکشن وہ جیت جائیں وہ ٹھیک ہے اور جو وہ ہار جائیں بالکل غلط ہے۔ حقائق جانتے ہوئے چیزوں کو متنازعہ بنانے سے وہ پاکستان اور جمہوریت کی خدمت نہیں کر رہے۔ اِن کے ارکان پارلیمان اور سینٹ میں موجود ہیں، یہ الیکشن ریفارمز کیوں نہیں کرتے، اِن کا مقصد اصل میں ہے ہی نہیں، وہ تو ایسی تجاویز دیں گے جس سے موجودہ سیٹ اپ کو نقصان ہو، اس الیکشن اور جمہوریت کو آپ متنازعہ نہ بنائیں، اس ملک نے آپ پر بہت احسانات کیے ہیں، کل سب نے دیکھا اور ہمیں بھی بہت خوشی ہوئی کہ نوازشریف بہت ہشاش بشاش لگ رہے تھے۔ وفاقی وزیر اسدعمر نے کہا کہ کل نوازشریف فواد چودھری سے کم صحت مند نہیں لگ رہے تھے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کل ہی نوازشریف نے یہ باتیں کیوں کیں، اِن کی صرف سیاست ہی نہیں اِن کی کرپشن سے 30 سال سے بنائی ہوئی جائیدادیں بھی داؤ پر لگ جائیں گی۔ وزیراعظم نے ماضی میں کہا تھا جب بھی ان کے خلاف کیسز چلیں گے تو یہ سب ایک ہوجائیں گے، کل سب نے دیکھا وزیراعظم عمران خان نے جو کہا تھا سچ ثابت ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اِن دونوں جماعتوں کی باریاں لگی ہوئی تھیں جو عمران خان کے آنے سے ختم ہوگئیں۔ وزیراعظم عمران خان کا موقف رہا ہے کہ یہ مفاد پرستوں کا ٹولہ ہے، کورونا کے شروع کے دنوں میں اپوزیشن کے لیڈروں میں بہت جوش تھا، ایک لیڈر تو لندن سے بھی بھاگے بھاگے پاکستان آگئے، یہ چاہتے تھے کورونا میں حکومت ناکام ہوجائے گی اور ہم اسے نکال باہر کریں گے۔ کل انہوں نے اے پی سی میں کورونا کی کوئی بات نہیں کی۔ اسد عمر بولے کہ عمران خان کے موقف کو آج ڈبلیو ایچ او سمیت پوری دنیا تسلیم کر رہی ہے، جو قوانین کو پاکستان کو بلیک لسٹ ہونے سے بچانے کے لیے بچائے جا رہے تھے ان پر بھی انہی نے تنقید کی۔ انہوں نے سوچا کہ این آر او لینے کا اس سے بہتر موقع نہیں ہوسکتا، انہوں نے 34 ترامیم رکھ دیں اور کہا کہ یہ مانو گے تو ہم ایف اے ٹی ایف بلز منظور کریں گے۔  انہوں نے کہا کہ یہ کرو گے تو ہم مانیں گے، پاکستان بے شک بلیک لسٹ میں چلا جائے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ان کے ساتھ ساتھ وہ قوتیں جو پاکستان سے دشمنی رکھتے ہیں ان کے لیے بھی خطرناک صورتحال پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ فاٹا کو پاکستان کا حصہ بنا کر فاٹا میں ریفارمز کی گئیں۔ کراچی کو پچھلے بیس پچیس سال استعمال کیا گیا۔ کراچی میں بھی بہتری آنا شروع ہوئی، بہت بڑا تاریخی پیکیج کراچی کو دیا گیا، بلوچستان میں پاکستان مخالف قوتوں کا پورا زور ہے، بلوچستان کے لیے بھی وزیراعظم نے بہت بڑا پیکیج بنایا ہے جس کا جلد اعلان کردیا جائے گا۔ وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا نظر آرہا ہے کہ نوازشریف کا بیانیہ کس سے مل رہا ہے، نوازشریف کا یہ کوئی نیا کام نہیں، نوازشریف کا طرزعمل بالکل سادہ سا ہے، ادارہ اگر نوازشریف کے کنٹرول میں نہیں ہے تو اس کے ساتھ جنگ ہے، فوج اور عدلیہ نوازشریف کے تابع نہیں ہے، عدلیہ نے نوازشریف کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر باہر جانے دیا، کوئی ایک فیصلہ بھی جو ان کے خلاف ہو تو عدلیہ ٹھیک کام نہیں کررہی۔ نوازشریف جس چیئرمین نیب پر حملے کر رہے ہیں یہ ان کا اپنا لگایا ہوا ہے، یہ چاہتے ہیں جو ادارہ نوازشریف کے آڑے آتا ہو اسے ختم کردیا جائے۔ وفاقی وزیر ٹیکنالوجی فوادچودھری نے کہا کہ سندھ ہائیکورٹ کی ججمنٹ سامنے رکھتے تو نوازشریف کا خطاب دکھانا غیرقانونی ہوجاتا، وزیراعظم نے فیصلہ کیا کہ نوازشریف اور اپوزیشن کا خطاب دکھایا جائے، کل جو ابو بچاؤ کانفرنس ختم ہوئی اس کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ عدلیہ اور فوج ہمارے ساتھ ہے تو اس سے اچھی بات نہیں۔ اگرفوج اور عدلیہ ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے تو بہت بری بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ کل نوازشریف کی تقریر میں فوج اور عدلیہ کو بہت برا بھلا کہا گیا، نوازشریف مے فیئر کے مہنگے اپارٹمنٹس میں بیٹھ کرعوام سے کہہ رہے تھے کہ باہر نکلو، غلطی ہماری ہی تھی، ہمیں پہلے دن سے ہی معلوم تھا کہ نوازشریف واپس نہیں آئیں گے، ہم نے سات ارب روپے کا بانڈ بھی اسی لیے مانگا تھا۔ فواد چودھری بولے کہ نوازشریف اپنا پہلا کونسلر کا الیکشن گوالمنڈی سے ہار گئے تھے، 1985ء میں جنرل جیلانی نے اپنا فنانس منسٹر لگایا، نوازشریف چاہتے ہیں ان کا تعلق جنرل ضیاء الحق سے نہ جوڑا جائے، جنرل ضیاء نے ہی نوازشریف کی سیاست کی بنیاد رکھی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کل کے اجلاس میں مجھے مایوسی نظر آئی، کل کا اجلاس تضادات کا مجموعہ تھا، کل کے اجلاس کے سب سے زیادہ شادیانے ہمارے پڑوس میں بج رہے ہیں، ہر اس ادارے کو نشانہ بنایا گیا جس سے دشمن خائف ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کی مایوسی کی بہت سی وجوہات تھیں، سابقہ حکومت نے جانے سے پہلے ہی اعلان کردیا تھا کہ آنے والی حکومت کے لیے مشکلات ہوں گی، انہیں دھرنے سے امید تھی وہ تتربتر ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا ابھی بھی کہہ رہی ہے کہ کوویڈ کا چیلنج ختم نہیں ہوا، یورپ میں کیسز پھر بڑھنا شروع ہوگئے ہیں، نئی حکمت عملی اپنائی جا رہی ہے، جو لوگ سخت لاک ڈاؤن کا درس دے رہے تھے وہ کہہ رہے ہیں کہ دسمبر جنوری میں جلوس اور احتجاج کریں گے۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ یہ جانتے تھے کہ ایف اے ٹی ایف بلز کی منظوری کے لیے حکومت کو ان کے پاس جانا پڑے گا اور ہم گئے بھی، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ان کو جو سبکی ہوئی اس کے ذمہ دار ہم نہیں، یہ اپنی صفوں کو ٹٹولیں، اِن کا خیال تھا کہ حکومت اتنی پھنسی ہوئی ہے اور ڈیڈ لائن بھی ہے یہی وقت ہے حکومت کو نچوڑنے کا، انہوں نے 34 ترامیم پیش کردیں، این آر او اور کیا تھا۔ اِن کا مقصد نیب کو لپیٹنا تھا۔ کہا کہ اپوزیشن یہ جان چکی ہے کہ مقدمات کو جتنا لٹکا سکتے تھے لٹکا لیا، اب وہ اپنے منطقی انجام تک پہنچیں گے۔ اُنہوں نے کل کہا کہ ہمیں افغانستان میں ناکامی ہوئی، پوری دنیا جو نکتہ چینی کرتی تھی آج پاکستان کے کردار کی معترف ہے، امن عمل میں پاکستان کے کردار کی پوری دنیا آج تعریف کر رہی ہے۔ افغانستان کے مسئلے کا مذاکرات کے ذریعے حل عمران خان نے پیش کیا تھا، افغانستان میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے، اسے ناکامی نہیں کامیابی کہتے ہیں۔ وزیر خارجہ بولے کہ یہ خود کتنے ہی سال حکومت میں رہے اور انہوں نے کتنے موثرانداز میں کشمیر کا مسئلہ اٹھایا؟، عمران خان نے اقوام متحدہ سمیت پوری دنیا میں کشمیر کا مسئلہ بھرپور طریقے سے اٹھایا، جب مسئلہ کشمیر پوری دنیا میں عروج پر تھا تو اس پر سے توجہ ہم نے نہیں دھرنے نے ہٹائی۔ شاہ محمود بولے کہ انہوں نے کہا کہ سی پیک کو رول بیک کردیا گیا ہے، میں ابھی 21 اگست کو چین کا دورہ کرکے آیا ہوں، میری چینی ہم منصب سے تفصیلی گفتگو ہوئی، وہ مطمئن ہیں، وہ آگے بڑھنے کے لیے تیار ہیں اور سی پیک کے فیز ٹو کا بھی معاہدہ کیا ہے، سی پیک رول بیک نہیں بلکہ اس کے پراجیکٹ مکمل ہونے کی طرف جا رہے ہیں۔ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں، یہ جو جمہوریت کا درد دکھا رہے ہیں یہ درد کچھ اور ہے۔ کہا کہ اپوزیشن نے جنوری 2021ء کی تاریخ دی ہے، ابھی تو درمیان میں کئی طویل راتیں ہیں، ماضی میں بھی ان کے فیصلے وقت کے ساتھ بدلتے رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کل انہوں نے ایک کروڑ 70 لاکھ ووٹرز کی تضحیک کی ہے۔ اِن کا الائنس ضرورت کے تحت ہے، یہ الائنس نظریاتی نہیں ہے، یہ تو ایک دوسرے کے ساتھ نہ بیٹھ سکتے ہیں اور نہ ایک ساتھ چل سکتے ہیں۔ اِنہیں عمران خان سے ضرورت سے زیادہ خوف اکٹھا کررہا ہے، اِن کا مقصد جب بھی پورا ہوا یہ پھر تتر بتر ہوجائیں گے، ان کا اکٹھ عارضی ہے۔ وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے کل فوج، عدلیہ، الیکشن کمیشن، نیب کو نشانہ بنایا، کسی ایک ادارے کو بھی نہیں چھوڑا۔ اگر اداروں کو نشانہ بنا کر وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے دل جیتے ہیں تو انہیں مبارک ہو، نیب کے حوالے سے ہم نے سودے بازی کی ہے اور نہ کریں گے، گلگت بلتستان کے لوگ اپنا تشخص چاہتے ہیں، اس پر ہم چاہتے ہیں بیٹھ کر بات کرلیں۔