Friday, April 19, 2024

ایف بی آر ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے بارے کیس ، سپریم کورٹ نے سوالات کا جواب مانگ لیا

ایف بی آر ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے بارے کیس ، سپریم کورٹ نے سوالات کا جواب مانگ لیا
February 20, 2020
اسلام آباد (92 نیوز) سپریم کورٹ نے ایف بی آر ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے سے متعلق کیس میں ہائی کورٹ کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب مانگ لیا،  استفسار کیا کہ  پرال کو کنٹریکٹ دیتے وقت پیپرا قوانین کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی؟۔  چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ایف بی آر والے اپنا آئی ٹی سسٹم کیوں نہیں بناتے، افسران آن لائن پاس ورڈز کے ساتھ جو کھیل کھیلتے ہیں معلوم ہے، بلاوجہ اربوں روپے کے ٹیکس ری فنڈ کیے جاتے ہیں۔ ایف بی آر کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی  ، عدالت نے  استفسار کیا انتہائی حساس ڈیٹا نجی کمپنی کو کیسے دیدیا گیا؟ ، کیا ایف بی آر ٹیکس بھی نجی کمپنی کے ذریعے ہی لیتا ہے؟ ، ایف بی آر والے اپنا آئی ٹی سسٹم کیوں نہیں بناتے ؟ ۔ عدالت نے  پرال کمپنی کو ختم کرکے نیب کو تحقیقات کرنے کا عندیہ دیا تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پرال نجی کمپنی نہیں بلکہ پبلک لمیٹڈ ہے، کمپنی کا کام صرف سافٹ ویئر بنانا ہے ٹیکس اعدادوشمار اکٹھے کرنا نہیں ، ایف بی آر پرال کو سالانہ 68 کروڑ ادا کر رہا ہے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایف بی آر افسران کے پورے پورے خاندان اس کمپنی میں ملازم ہیں ، پرال ٹھیک کام کر رہا ہوگا لیکن روزانہ کتنے کنٹینر بغیر ڈیوٹی ادا کیے نکل جاتے ہیں؟، ادارے کو  پرال کے قیام سے کیا فائدہ ہوا؟ کیا ٹیکس ریکوری میں اضافہ ہوا؟ ، بلاوجہ اربوں روپے کے ٹیکس ری فنڈ جاری کیے جاتے ہیں، غیرقانونی ٹیکس ری فنڈ کے کئی مقدمات عدالت میں ہیں، آن لائن سسٹم سے بھی دو نمبری ہی ہونی تو اس کا کیا فائدہ۔ چیئرپرسن ایف بی آر نوشین امجد نے آگاہ کیا کہ سول سروس میں تنخواہیں کم ہونے کی وجہ سے تکنیکی لوگ نہیں آتے ، میری تنخواہ پرال کمپنی کے جی ایم سے بھی کم ہے جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ کمپنیاں بنانے کا مقصد صرف زیادہ تنخواہیں دینا ہے ، پنجاب میں بھی 56 کمپنیاں بنائی گئی ہیں؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ من پسند افراد کو کمپنی میں نوازنے پر تشویش ہے ، کنٹینرز فراڈ میں ملوث افراد کیخلاف کیا کارروائی ہوئی؟ ۔ عدالت نے کیس کی سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی ۔