Friday, May 3, 2024

اپوزیشن ٹرمز آف ریفرنس پر متفق‘ وزیراعظم کے استعفے پر غیرمتفق

اپوزیشن ٹرمز آف ریفرنس پر متفق‘ وزیراعظم کے استعفے پر غیرمتفق
May 3, 2016
اسلام آباد (92نیوز) اپوزیشن جماعتوں کی دو روزہ بیٹھک رنگ لے آئی۔ تمام ہی نمایاں اپوزیشن جماعتیں بالاخر پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے پندرہ نکاتی ٹرمز آف ریفرنس پر متفق ہو گئیں۔ اپوزیشن جماعتوں کا متفقہ مطالبہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بااختیار کمیشن بنایا جائے۔ تفصیلات کے مطابق اپوزیشن کے مشترکہ ٹی او آرمیں وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ تو شامل نہیں لیکن پھر بھی اس میں کئی تلخ نکات کو جگہ دی گئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ بیرون ملک اثاثہ جات کی تحقیقات کے لئے پانامہ پیپرز انکوائری اینڈ ٹرائل ایکٹ کا قانون پاس کیا جائے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی انکوائری کمیشن بنایا جائے۔ ججز کا انتخاب چیف جسٹس آف پاکستان کی صوابدید پر ہو۔ کمیشن انٹرنیشنل فرانزک آڈیٹرز سمیت دیگر ماہرین کی معاونت حاصل کرنے میں خود مختار ہو۔ ہر فرد کمیشن کی قائم کردہ کمیٹی کو جنرل پاور آف اٹارنی کے ذریعے اپنے تمام اثاثہ جات اور بینک اکاونٹس تک رسائی ممکن بنانے کا پابند ہو گا۔ اثاثے غیرقانونی ثابت ہوں تو انہیں بحق سرکار ضبط کرلیا جائے۔ انکوائری کمیشن اپنی تحقیقات کا آغاز وزیر اعظم اور ان کے خاندان سے کرے۔ وزیر اعظم اپنے ہر قسم کے اثاثہ جات کی تفصیلات کمیشن کو فراہم کریں۔ وزیر اعظم اور ان کے خاندان سمیت وہ تمام افراد جن کے نام پانامہ پیپرز میں آئے ہیں کمیشن کے سامنے خود پیش ہوں۔ Opp meeting   کمیشن کے پاس مکمل عدالتی اختیارات ہونا چاہئیں۔ کمیشن وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف تحقیقات نوے روز میں مکمل کرے۔ ضرورت پڑنے پر مدت میں 30 روز کا اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ باقی تمام افراد کی انکوائری ایک سال میں مکمل کی جائے۔ یہ بھی پتہ لگایا جائے کہ کیا وزیراعظم نواز شریف اور ان کا خاندان بیرون ملک قیام کے دوران مملکت پاکستان کے توسط سے ریاستی مہمان رہا، ان کو ملنے والے تحائف اورجائیداد کی تفصیلات بتائی جائیں۔ کمیشن کی کارروائی اوپن ہو اور کمیشن اپنی جو بھی رپورٹ حکومت کے حوالے کرے اسے ایک ہفتے کے اندرشائع کیا جائے۔ پاناما لیکس میں شامل افراد کی بے نامی جائیدادوں کی انیس سو پچاسی سے اب تک کی تفصیلات سامنے لائی جائیں۔ جن کے نام آئے ہیں ان کے اور ان کے خاندان کے ذرائع آمدنی کیا تھے؟ رقوم کن بینکوں میں رکھی گئیں ؟اور ان افراد نے پاکستان میں اپنی آمدن پر کتنا ٹیکس دیا۔     بیرون ملک جن جائیدادوں کی ملکیت تسلیم کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ان افراد یا ان کے خاندان کے پاس کون کون سی جائیدادیں ہیں اوریہ کیسے خریدی گئیں۔ آف شور اکاو¿نٹس رکھنے والے یا ان کے خاندان کے افرادنے قانونی ضابطے مکمل کئے تورقوم کی بیرون ملک ترسیل کا طریقہ کار کیا تھا۔ جن افراد نے بیرون ملک جائیدادوں کی ملکیت تسلیم کی وہ الیکشن کمیشن کے سامنے ان اثاثوں کو چھپا کر غیرقانونی اقدامات کے مرتکب تو نہیں ہوئے۔