Sunday, May 19, 2024

امیر اور غریب ممالک، دونوں میں بچوں میں موٹاپا بڑھتا ہوا

امیر اور غریب ممالک، دونوں میں بچوں میں موٹاپا بڑھتا ہوا
October 16, 2017

لندن (92 نیوز) دنیا کے کئی ترقی یافتہ اور امیر ممالک میں بچوں میں موٹاپے کی شرح اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے جبکہ ترقی پذیر ملکوں کے بچوں میں بھی فربہ پن کا رجحان مسلسل زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بات ایک نئی تحقیق کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔

برطانوی دارالحکومت لندن سے بدھ گیارہ اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں جتنے بھی بچے ہیں، ان میں سے اپنی عمر اور قد کے مطابق موٹاپے کے شکار بچوں کے مقابلے میں معمول کے جسمانی وزن سے کم وزن کے حامل بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔

تشویش کی بات لیکن یہ ہے کہ اگر نابالغ انسانوں میں موٹاپے کا مسلسل بڑھتا ہوا موجودہ رجحان جاری رہا، تو 2022ء تک عالمی سطح پر فربہ پن کے شکار بچے اکثریت میں ہو جائیں گے۔

اس موضوع پر ایک نئی تحقیق کے دوران برطانوی سائنس دانوں اور عالمی ادارہ صحت کے ماہرین نے ان اعداد و شمار کا تفصیلی تجزیہ کیا، جو مختلف ممالک میں پانچ سے لے کر انیس برس تک کی عمر کے 32 ملین بچوں اور نوجوانوں کے جسمانی وزن سے متعلق 2400 مختلف مطالعاتی جائزوں میں جمع کیے گئے تھے۔

یہ وسیع تر ڈیٹا جن مطالعاتی جائزوں کے نتیجے میں حاصل ہوا تھا، وہ 1975ء اور 2016ء کے درمیانی عرصے میں مکمل کیے گئے تھے۔ ان طبی تحقیقی جائزوں میں قریب سوا تین کروڑ بچوں اور نوجوانوں کے ’باڈی ماس انڈکس‘ یا BMI کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی صحت سے متعلق مستقبل کے مختلف ممکنہ ماڈل تیار کیے گئے تھے۔

باڈی ماس انڈکس یا بی ایم آئی طبی طور پر ایک ایسی عددی پیمائش کا نام ہے، جو یہ بتاتی ہے کہ کسی اوسط صحت مند انسان کی عمر، جنس، قد اور وزن کے مطابق اچھی صحت کے لحاظ سے ان عوامل کا تناسب کیا ہونا چاہیے۔

اس نئی ریسرچ کے نتیجے میں ماہرین کو پتہ یہ چلا کہ ترقی یافتہ معاشروں میں بچوں میں موٹاپے کی شرح اپنی اب تک کی انتہائی اونچی حد تک پہنچ چکی ہے۔ مثلاﹰ برطانیہ میں چھوٹے بچوں اور انیس برس تک کی عمر کے نوجوانوں میں سے قریب 10 فیصد موٹاپے کا شکار ہیں اور امریکا میں تو معاشرے کے اسی طبقے میں فرپہ پن کی شرح قریب 20 فیصد ہو چکی ہے۔

اس کے برعکس ترقی پذیر معاشروں میں بھی بچوں اور نوجوانوں میں موٹاپے کی شرح مسلسل زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ ماہرین کے نزدیک اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ غریب اور ترقی پذیر ممالک کے شہریوں کے لیے ’غربت کی وجہ سے صحت بخش غذا تک رسائی بہت مشکل‘ ہو چکی ہے۔

مجموعی طور پر جنوبی ایشیا میں قریب 20 فیصد لڑکیوں اور 28 فیصد لڑکوں کا جسمانی وزن اپنی صحت مند اوسط سے یا تو کچھ کم یا پھر بہت ہی کم ہوتا ہے۔ اسی کم جسمانی وزن کی وجہ سے ایسے نابالغ شہریوں کے مختلف بیماریوں کا شکار ہو جانے کا خطر بھی زیادہ ہو جاتا ہے، خاص طور پر ایسی لڑکیوں کو بعد میں دوران حمل کئی طرح کی پیچیدگیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔