Wednesday, April 24, 2024

امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے پاکستانی آئل کمپنی پر ایران سے خام تیل منگوانے کی پابندی سے متعلق انکوائری بند کر دی

امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے پاکستانی آئل کمپنی پر ایران سے خام تیل منگوانے کی پابندی سے متعلق انکوائری بند کر دی
April 26, 2021

اسلام آباد (92 نیوز) پیٹرولیم ڈویژن اور وزارت خارجہ کی کاوشوں کے نتیجے میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے پاکستانی آئل کمپنی پر مبینہ طور پر ایران سے خام تیل کے دو جہاز منگوانے کے سلسلے میں پابندی عائد کرنے سے متعلق انکوائری بند کر دی ہے۔

بائیکو پیٹرولیم کو امریکی محکمہ خارجہ اور کسٹمز کے تمام الزامات سے کلئیر کر دیا گیا ہے۔

امریکی سفارت خانے کے عہدیداروں نے تیل انکوائری کمیشن کی اس رپورٹ کے بعد پٹرولیم ڈویژن کا دورہ کیا تھا جس میں بائیکو آئل ریفائنری پر ایران سے تیل سمگل کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ آئل سیکٹر کی ایک بااثر شخصیت کی ایما پر پٹرول انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں یہ الزامات شامل کروائے گئے تھے جس کے باعث پاکستان کیلئے عالمی سطح پر مشکلات پیدا ہوگئیں تھیں۔ اس رپورٹ کے بعد امریکی سفارتخانے کے عہدیداروں نے پٹرولیم ڈویژن کے عہدیداروں کو آگاہ کیا تھا کہ امریکی محکمہ خارجہ نے تیل کی مبینہ ترسیل سے متعلق تشویش ظاہر کی ہے۔

وزارت توانائی کے حکام کے مطابق بائیکو پٹرولیم پاکستان لمیٹڈ نے تیل کی ترسیل کے ریکارڈ کا معائنہ کرنے کے لئے کمپنی کا دورہ کرنے کے لئے امریکی حکام سے تبادلہ خیال اور امریکی حکام کی مدد کے لئے مکمل تعاون کیا۔ عالمی سطح پر وفاقی حکومت کی کامیابی کی یہ ایک غیر معمولی مثال ہے۔

جون اور جولائی میں عمان سے کراچی آنے والے خام تیل کے دو جہازوں  سے متعلق ایم ٹی رہیا (آئی ایم او 9256468) اور ایم ٹی ایلسا (آئی ایم او 9237228) کے بارے میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے تحقیقات شروع کی گئیں تھیں۔ بائیکو انتظامیہ نے عہدیداروں کو سمندری ٹریفک کا مکمل ریکارڈ بھی فراہم کیا تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تیل کی ترسیل در حقیقت ایران کے بجائے عمان سے آئی تھی۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کمپنی انتظامیہ کو بھی آگاہ کیا تھا کہ ان کے پاس لین دین کے دستاویزات پر نظرثانی کی بنیاد پر امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

محکمہ خارجہ نے ان دونوں جہازوں سے متعلق بی پی پی ایل کے خلاف کوئی بھی کارروائی کیے بغیر پابندیوں سے متعلق تحقیقات کو بند کردیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انکوائری آئل کمیشن نے بغیر کسی تکمیل کی چھان بین کے بائیکو کے خلاف الزامات کا انبار لگایا تھا جس سے پاکستان اور کمپنی کیلئے کئی مشکلات پیدا ہو گئیں تھیں۔ سمندری ٹریفک کنٹرولرز کے مطابق یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی جہاز کا ریکارڈ غائب کیا جا سکے۔