Thursday, May 9, 2024

افضل محمود تین ماہ قبل بے گناہ قرار پائے،لیٹر جاری نہ ہوسکا‏

افضل محمود تین ماہ قبل بے گناہ قرار پائے،لیٹر جاری نہ ہوسکا‏
October 19, 2019
لاہور ( 92 نیوز ) ہراسگی کے الزامات پر اپنے ہی ضمیر کے بوجھ تلے دبے ایم اے او کالج کے خود کشی کرنے والے لیکچرار افضل محمود کو انکوائری کمیٹی کی جانب سے بے گناہ قرار دیا گیا مگر تصدیقی لیٹر جاری ہوا ، نہ ہی  الزام تراشی کرنے والی  طالبہ کے خلاف کوئی کارروائی  کی گئی جس سے دلبرداشتہ ہو کر  افضل محمد نے خود کشی کر لی۔ ایم اے او کالج کی ہراسمنٹ کمیٹی کی چیئرپرسن  ڈاکٹر عالیہ کو لکھے خط میں   افضل محمود نے لکھا کہ  کہ میڈم!آپ نے مجھے بتایا تھا کہ مجھے ہراساں کرنے کے الزامات سے بری کردیا گیا ہے لیکن میں اب بھی شدید ذہنی دباؤ میں ہوں کیونکہ اس کیس کی خبر کا پورے کالج کو علم ہے اور جب تک انتظامیہ تحریری طور پر مجھے یہ نہیں دیتی کہ مجھ پر لگائے جانے والے سارے الزامات جھوٹے تھے ، میں اس وقت تک برے کردار والے شخص کے طور پر پہچانا جاؤں گا ، میرے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ میں معصوم ہوں۔ https://youtu.be/ne1sxhh3lKA افضل محمود نے خط میں دہائیاں دیتے ہوئے لکھا  ان الزامات کی وجہ سے میری گھریلوں زندگی شدید متاثر ہوئی ہے۔میری بیوی نے مجھے بدکردار سمجھ کر چھوڑ دیا ہے ، میری زندگی کا اب کوئی مقصد نہیں رہا ، میں کالج اور گھر میں ایک بدکردار شخص بن چکا ہوں ، میرے دل و دماغ میں ہر وقت شدید تکلیف رہتی ہے ، اگر میں مر جاتا ہوں ، میں بطور دوست آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ میری تنخواہ اور میرا کریکٹر سرٹیفکیٹ کالج کے پرنسپل سے لے کرمیری ماں کو دے دیا جائے۔ [caption id="attachment_247037" align="alignnone" width="489"]افضل محمود تین ماہ قبل بے‏ بے گناہ قرار لاہور ‏ ‏92 نیوز ‏ ہراسگی کے الزامات ‏ ایم اے او کالج ‏ خود کشی ‏ لیکچرار افضل محمود ‏ انکوائری کمیٹی ‏ افضل محمود تین ماہ قبل بے گناہ قرار پائے،لیٹر جاری نہ ہوسکا‏[/caption] افضل محمود نے انکوائری کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر عالیہ کو لکھے گئے خط میں اپیل کہ میں آپ سے دوبارہ درخواست کرتا ہوں کہ میرا نام اور شہرت کالج میں بحال کروا دیں کیونکہ آپ  سینئر  پروفیسر ہیں اور آپ کا کالج انتظامیہ پر اثر ورسوخ بھی ہے۔ افضل دہائیاں دیتا رہا مگر اسے بے گناہ ہونے کے باوجود سرٹیفکیٹ نہ ملا ، ہراسگی کے الزامات تلے دبے افضل نے بدنامی پر موت کو ترجیح دی۔ افضل تو مرگیا مگر عمر بھر کا پچھتاوا دے گیا ، ہراسگی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر عالیہ کہتی ہیں وہ کبھی تصور بھی نہیں کرسکتی تھیں کہ افضل اس طرح اپنی جان لے گا ، وہ تو ہمیشہ ہنستا اور مسکراہتا رہتا تھا ، افضل کے آخری خط کو مکمل نہ پڑھنے کا افسوس ہے۔ ڈاکٹر عالیہ کے مطابق 8 اکتوبر کی دوپہر افضل میرے پاس آئے اس وقت میں کالج گیٹ سے گھر کے لیے نکل رہی تھی۔ انہوں نے مجھے ایک لیٹر دیا میں نے اس لیٹر کی پہلی تین چار لائنیں پڑھیں جس میں لکھا تھا کہ آپ مجھے  کلیئرنس لیٹر جاری کردیں میں نے وہ اپنی فائل میں رکھا اور میں چلی گئی۔ ڈاکٹر عالیہ نے پچھتاوے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے افضل محمود کا پورا خط نہیں پڑھا کیونکہ لیٹر کی آخری لائنوں میں لکھا تھا کہ میری تنخواہ میری والدہ کو دے دی جائے۔ ڈاکٹر عالیہ نے کہا وہ کبھی تصور بھی نہیں کرسکتی تھیں کہ افضل اپنی  جان لے لےگا ،وہ تو ہمیشہ ہنستا اور مسکراہتا رہتا تھا۔ ڈاکٹر عالیہ نے بتایا کہ  افضل کی موت کے بعد انہوں نے  پرنسپل کو وہ درخواست دکھائی جو افضل نہیں اسے دی تھی  ، اس پر پرنسپل نے کہا  جب تک ضرورت نہیں پڑتی آپ صرف اپنے کاغذات مکمل رکھیں جب آپ سے کوئی مانگے تو دے دیجیے گا۔ 92 نیوز نے ایم اے او کالج کے پرنسپل فرحان عبادت سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ  بالکل غلط بات ہے ، پروفیسر افضل پر ہراسمنٹ کے کیس سے بری ہوئے ،انہیں بتایا گیا ، انہوں نے ہراسمنٹ کمیٹی کی چیئرپرسن  ڈاکٹر عالیہ کو ایک لیٹر دیا جس کا علم مجھے  سوشل میڈیا کے ذریعے  ہوا ۔  خط میں وہ کچھ ڈیمانڈ نہیں کر رہے تھے ، 9 اکتوبر کو انہوں نے  خود کشی کر لی ، انہیں الزامات  سے بری کر دیا گیا تھا ، مجھے ایک بار مل لیتے  اور میں لیٹر جاری نہ کرتا تو میں گناہ گنار ہوتا۔ ڈاکٹر عالیہ کے مطابق انہوں نے معاملے کی رپورٹ تین ماہ پہلے پرنسپل کو بھجوا دی تھی مگر فرحان عبادت  نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی ، 92نیوز نے جب وزیر ہائر ایجوکیشن پنجاب ہمایوں یاسر سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس سارے واقعہ پر  تبصرہ  کرتے ہوئے کہا کہ سارے فرشتے تو محکمے میں نہیں بیٹھے ، لوگ غلطیاں کرتے ہوں گے ۔ وزیر ہائیر ایجوکیشن کا مؤقف اپنی جگہ مگر سوال تو یہ ہے کہ ایک استاد کو بے گناہ ہونے کے باوجود بے گناہی کا سرٹیفکیٹ کیوں جاری نہیں کیا گیا؟، افضل محمود تین ماہ تک انصاف کا طلبگار رہا مگر پرنسپل آفس نے ایک بار بھی اس کی حوصلہ افزائی کیوں نہیں کی۔