اسلام آباد ہائیکورٹ کا سیکرٹری سول ایوی ایشن کے بطور ڈی جی فیصلوں پر اعتراض
ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن کی تعیناتی اور پی آئی اے پائلٹس کی لائسنس معطلی کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من کے سخت ریمارکس دئیے کہ عدالت ایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی لیکن قومی ائیرلائن پر پابندی لگ گئی کون ہے اسکا ذمہ دار؟، استفسار کیا، کتنے پائلٹس ہیں جن کے لائسنس اب بھی مشکوک ہیں۔
سیکرٹری سول ایوی ایشن نے آگاہ کیا کہ 50 پائلٹس کے لائسنس منسوخ جبکہ 32 کے مشکوک ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پارلیمنٹ کے فلور پر 262 پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کا بیان دیا گیا آج کہہ رہے ہیں کہ صرف 82 ہیں۔
سیکرٹری سول ایوی ایشن نے کہا کہ کی اس فہرست کی منظوری ڈی جی نے دی تھی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ڈی جی موجود ہی نہیں، اسکا چارج سیکرٹری کو کیسے دیا جا سکتا ہے؟۔
سیکرٹری بورڈ کا چیئرمین ہے اور قانون میں کوئی گنجائش نہیں کہ چیئرمین کو ڈی جی کا چارج دیا جا سکے، اس عدالت نے ہمیشہ ایگزیکٹو کے کام کو ان پر چھوڑا ہے لیکن یہاں معاملہ مختلف ہے، یہاں معاملہ قومی ایئرلائن کی ساکھ اور قومی وقار کا ہے۔ اتنے اہم ریگولیٹر ایسے چلیں گے تو وہی نتیجہ ہو گا جو ہو گیا۔ کوئی تو اسکا ذمہ دار ہو گا؟۔
عدالتی استفسار پر اٹارنی جنرل نے تسلیم کیا کہ ڈی جی ایوی ایشن اور سیکرٹری کا چارج ایک شخص کے پاس نہیں ہو سکتا، یہ قانون کی خلاف ورزی ہے، اس معاملے پر انتہائی غفلت برتی گئی اور جعلی لائسنسز کا بیان دیا گیا۔
سیکرٹری سے کہا کہ جن کے لائسنس جعلی ہیں انکے نام سامنے لائیں ورنہ پوری دنیا میں ہزاروں پائلٹس کے لائسنس منسوخ ہونگے۔
اٹارنی جنرل نے آئندہ دو سے تین روز میں ڈی جی سول ایوی ایشن کی تعیناتی کی یقین دہانی کرائی تو چیف جسٹس نے سیکرٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ نے جو اقدامات کیے وہ سارے خلاف قانون ہیں ان کا تحفظ کون کریگا۔ عدالت تمام اقدامات کو غیرقانونی قرار دے گی۔