Friday, April 26, 2024

اسلام آباد ہائیکورٹ کا سیکرٹری سول ایوی ایشن کے بطور ڈی جی فیصلوں پر اعتراض

اسلام آباد ہائیکورٹ کا سیکرٹری سول ایوی ایشن کے بطور ڈی جی فیصلوں پر اعتراض
November 24, 2020

ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن کی تعیناتی اور پی آئی اے پائلٹس کی لائسنس معطلی کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من کے سخت ریمارکس دئیے کہ عدالت ایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی لیکن قومی ائیرلائن پر پابندی لگ گئی کون ہے اسکا ذمہ دار؟، استفسار کیا، کتنے پائلٹس ہیں جن کے لائسنس اب بھی مشکوک ہیں۔

سیکرٹری سول ایوی ایشن نے آگاہ کیا کہ 50 پائلٹس کے لائسنس منسوخ جبکہ 32 کے مشکوک ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پارلیمنٹ کے فلور پر 262 پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کا بیان دیا گیا آج کہہ رہے ہیں کہ صرف 82 ہیں۔

سیکرٹری سول ایوی ایشن نے کہا کہ کی اس فہرست کی منظوری ڈی جی نے دی تھی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ڈی جی موجود ہی نہیں، اسکا چارج سیکرٹری کو کیسے دیا جا سکتا ہے؟۔

سیکرٹری بورڈ کا چیئرمین ہے اور قانون میں کوئی گنجائش نہیں کہ چیئرمین کو ڈی جی کا چارج دیا جا سکے، اس عدالت نے ہمیشہ ایگزیکٹو کے کام کو ان پر چھوڑا ہے لیکن یہاں معاملہ مختلف ہے، یہاں معاملہ قومی ایئرلائن کی ساکھ اور قومی وقار کا ہے۔ اتنے اہم ریگولیٹر ایسے چلیں گے تو وہی نتیجہ ہو گا جو ہو گیا۔ کوئی تو اسکا ذمہ دار ہو گا؟۔

عدالتی استفسار پر اٹارنی جنرل نے تسلیم کیا کہ ڈی جی ایوی ایشن اور سیکرٹری کا چارج ایک شخص کے پاس نہیں ہو سکتا، یہ قانون کی خلاف ورزی ہے، اس معاملے پر انتہائی غفلت برتی گئی اور جعلی لائسنسز کا بیان دیا گیا۔

سیکرٹری سے کہا کہ جن کے لائسنس جعلی ہیں انکے نام سامنے لائیں ورنہ پوری دنیا میں ہزاروں پائلٹس کے لائسنس منسوخ ہونگے۔

اٹارنی جنرل نے آئندہ دو سے تین روز میں ڈی جی سول ایوی ایشن کی تعیناتی کی یقین دہانی کرائی تو چیف جسٹس نے سیکرٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ نے جو اقدامات کیے وہ سارے خلاف قانون ہیں ان کا تحفظ کون کریگا۔ عدالت تمام اقدامات کو غیرقانونی قرار دے گی۔