Friday, May 3, 2024

اسلام آباد ہائیکورٹ نے گرفتاری سے متعلق چیئرمین نیب کے اختیارات کی تشریح کردی

اسلام آباد ہائیکورٹ نے گرفتاری سے متعلق چیئرمین نیب کے اختیارات کی تشریح کردی
March 7, 2020
اسلام آباد (92 نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے گرفتاری سے متعلق چئیرمین نیب کے اختیارات کی تشریح کردی، ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی میں گرفتاری اختیار کا غلط استعمال قرار دیدیا ،  عدالت نے واضح کردیا  کہ نیب اختیارات کا غلط استعمال گورننس اور معیشت پر منفی اثرات مرتب کررہا ہے۔ اسلام آباد  ہائیکورٹ  نے کرپشن سے متعلق کیس میں پی ٹی اے کے ڈی جی عبدالصمد اور ڈائریکٹر امجد مصطفیٰ کی ضمانت منظوری کا 56 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کردیا ،  چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب کے دستخط سے جاری فیصلے میں عدالت نے گرفتاری سے متعلق چئیرمین نیب کے اختیارات کی تشریح کردی ۔ عدالت کی جانب سے  بتادیا گیا  کہ چیئرمین نیب ملزمان کی گرفتاری کا اختیار کیسے استعمال کرسکتے ہیں ، گرفتاری کا اختیار کہاں درست ، کہاں غلط ہوگا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جرم میں ملوث ہونے کے ناکافی شواہد پر کسی کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا ، ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی میں گرفتاری کی گئی تو یہ اختیارات کا غلط استعمال ہوگا ،شواہد بھی ایسے ہوں جو ملزم کا جرم سے بادی النظر میں تعلق جوڑیں۔ عدالت نے کہا کہ  ملزم کی مجرمانہ ذہنیت ثابت کرنے کے لیے بھی نیب کے پاس شواہد ہونا ضروری ہیں کہ ملزم کی نیت مالی یا ذاتی فوائد کے حصول کی تھی ، فیصلے میں سپریم کورٹ کے اسفند یار ولی کیس کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس میں عدالت عظمی گرفتاری سے متعلق اختیارات کی تشریح کرچکی ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ گرفتاری کے صوابدیدی اختیارات کا بے جا استعمال عوامی مفاد کے لیے نقصان دہ ہے ، نیب اختیارات کا غلط استعمال گورننس اور معیشت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے ، انہی منفی اثرات کو دور کرنے کے لیے نیب ترمییمی آرڈیننس جاری کیاگیا۔ فیصلے میں وائٹ کالر کرائم سے نمٹنے کے لیے تفتیشی افسران کی پیشہ ورانہ تربیت بھی لازم قرار دے دی گئی