Saturday, April 27, 2024

اسلام آباد میں لاقانونیت اور بیڈ گورننس ہے، ماحولیاتی آلودگی سے متعلق چیف جسٹس کے ریمارکس

اسلام آباد میں لاقانونیت اور بیڈ گورننس ہے، ماحولیاتی آلودگی سے متعلق چیف جسٹس کے ریمارکس
March 4, 2020
 اسلام آباد (92 نیوز) ماحولیاتی آلودگی سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا اسلام آباد میں لاقانونیت اور بیڈگورننس ہے۔ اسلام آباد کے آئی نائن انڈسٹریل ایریا میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق ازخود نوٹس کیس پر چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسلام آباد میں صنعتی زون بنانے کی اجازت کس نے دی؟؟ اسلام آباد کے ماسٹر پلان کو بدلنے کی اجازت دی تو ایک ہفتے میں مارگلہ کی پہاڑیاں غائب ہو جائیں گی۔ بلیو ایریا میں ہر جگہ کچرا نظر آتا ہے۔ رات کو ڈرائیور کے ساتھ اسلام آباد کا چکر لگاتے ہیں تو بڑی خوشبو آتی ہے۔ میئر یہاں کم لندن میں زیادہ ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ لگتا ہے میٹروپولیٹن کارپوریشن اور سی ڈی اے میں گھوسٹ ملازمین بھرتی کیے گئے۔ سی ڈی اے کا چپڑاسی سرکاری زمینوں پر قبضہ کرا دیتا ہے۔ سی ڈی اے سپریم کورٹ کے احکامات نہیں مانتا۔ اسے معلوم نہیں وہ کس چیز سے کھیل رہا ہے۔ عدلیہ ریاست کا تیسرا ستون اور سی ڈی اے چھوٹا سا ادارہ ہے۔ آئین کے تحت نہیں چلنا تو قوم کو اس کی ضرورت نہیں۔ سب نے اپنے کام سے سمجھوتہ کر لیا۔ پورے ملک کا یہی حال ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری چاہے اسلام آباد میں بنا لیں لیکن اسٹیل فیکٹریاں گوجرانوالہ یا پشاور لے جائیں۔ پورے ملک میں دکانیں نظرآرہی ہیں۔ صنعتکار بیوپاری بن گئے ، دکانوں میں اسمگلنگ کا مال فروخت ہو رہا ہے۔ لارنس پور میں دنیا کا بہترین اون کا کپڑا بنتا تھا جو بننا بند ہو گیا۔ ہاتھ سے کام کرنے والے قابل لوگ تھے ، پتہ نہیں ان کا کیا بنا۔ عدالت نے چیئرمین سی ڈی اے ، میئر اسلام آباد اور ڈی جی ماحولیاتی ایجنسی کو مل کر حل نکالنے کا حکم دیتے ہوئے اسلام آباد کو آلودگی سے پاک کرنے کا روڈ میپ طلب کر لیا۔