Friday, April 26, 2024

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع کا فیصلہ ‏

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع کا فیصلہ ‏
November 28, 2019
اسلام آباد ( 92 نیوز) سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی توسیع کر دی ،  کیس کا مختصر فیصلہ سنایا گیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آرمی چیف کی تقرری 6 ماہ کے لیے ہوگی،قوانین بننے کے بعد مزید دیکھا جائے گا،ہم معاملہ پارلیمنٹ اور حکومت پر چھوڑتے ہیں۔ دستاویزات کے مطابق پاک آرمی کا کنٹرول وفاق سنبھالتا ہے ، چیف آف آرمی اسٹاف کا تقرر صدر وزیراعظم کی مشاورت سے کرتا ہے، ہمارے سامنے یہ سوال آیا کہ کیا توسیع دی جاسکتی ہے یا نہیں ، آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کے حوالے سے قانون خاموش ہے ۔ دوران سماعت عدالت نے جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف اور جنرل ریٹائرڈ اشفاق پرویز کیانی  کی ریٹائرمنٹ کی دستاویزات پندرہ منٹ میں  طلب کیں ، پندرہ منٹ کے وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی  تو اٹارنی جنرل نے دستاویزات پیش کر دیں ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل کہا گیا جنرل ریٹائر نہیں ہوتا ، جب ریٹائر نہیں ہوئے تو پنشن نہیں ملے گی، درخواست پر سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو دستاویزات طلب کی گئی وہ منگوا لی ہیں ، تقرری آرٹیکل 243 کے تحت کی گئی ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ  یہ تقرری پہلے ہونے والی تقرریوں کے نوٹیفکیشن سے مختلف کیسے ہے ۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ تقریری 243 ون بی کے تحت کی ہے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب آپ نے تقرری کا راستہ بالکل تبدیل کر لیا ہے ، آپ کو ہمیں تسلی کرانا ہوگی ، بتائیں اب جو راستہ اپنایا گیا وہ قانونی کیسے ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نئی تقرری کی دستاویزات میں  سپریم کور ٹ کا بھی ذکر کر دیا گیا ، دستاویزات میں عدالت کو کیوں لاتے ہیں ، ایسا لگتا ہے عدالت کے کہنے پر یہ کردیا گیا ہے،  نئی سمری میں سپریم کورٹ کا ذکر کیوں کیا؟، ہمارا ذکر ان دستاویزات سے نکالیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 243 میں کسی ٹرم کا ذکر نہیں ۔ تین سال کی مدت کا ذکر تو قانون میں کہیں نہیں ہے، آپ نے سمری میں 3 سال کا لفظ لکھا ہے،اب ہرکوئی مستقبل میں ایسا ہی لکھا گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 28  نومبر سے تقرری کردی ہے  ، آج تو آرمی چیف کا عہدہ خالی ہی نہیں ہے،   آرمی چیف کا عہدہ آئینی عہدہ ہے،  آپ ادھر ادھر گھومتے رہے ہم نے کسی کو ایڈوائس نہیں کرنا اپنا بوجھ خود اٹھائیں،ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں۔ گزشتہ روز دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ سمری کے مطابق وزیراعظم نے آرمی چیف کی نئی تقرری کی سفارش کی، صدر کی طرف سے نوٹی فکیشن توسیع کا جاری ہوا۔ کہا کیا کسی نے سمری اور نوٹی فکیشن پڑھنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ کل ہی سمری گئی اور منظور بھی ہو گئی۔ اٹارنی جنرل نے کہا آرٹیکل 243 کے تحت مدت ملازمت میں توسیع ہوئی جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے کہا آرٹیکل 243 کے تحت نئی تقرری ہوتی ہے۔ چیف جسٹس بولے کہ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے، اس میں سب کی بات سنیں گے، یہ سوال آج تک کسی نے نہیں اٹھایا، اگر سوال اٹھ گیا ہے تو اسے دیکھیں گے۔ دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل منصور علی خان سے دریافت کیا کہ کیا ایکٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا ذکر ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مدت ملازمت میں توسیع کی گنجائش موجود ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے دوبارہ کہا کہ آپ جس کی رولز میں موجودگی کا ذکر کر رہے ہیں وہ ایکٹ بھی دکھائیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ اگر میں پاک فوج میں افسر بن جاتا ہوں تو کیا تاحیات کمیشنڈ افسر کہلاؤں گا؟ چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں مدت اور دوبارہ تعیناتی کا ذکر نہیں، اسی طرح ان کی مدت ملازمت میں توسیع کا ذکر بھی ایکٹ میں موجود نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کابینہ کی نئی سمری عدالت میں پیش کی اور موقف اپنایا کہ عدالت کو آرمی رولز کی شق 255 اورآئین کی شق 243 کو الگ الگ دیکھنا ہو گا۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ ‏ازسرنو توسیع سے متعلق قانون دکھائیں جن پرعمل کیا۔ حکومتی وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ‏رول 19 کے مطابق جواب نہ آنے کا مطلب ہاں ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ لیفٹیننٹ جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر 57 سال ہے لیکن اس رول میں آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی مدت کا ذکر نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ان کی ریٹائرمنٹ نہیں ہو سکتی، یہ تو بہت عجیب بات ہے۔ حکومتی وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا آئین کی شق 243 کے تحت وفاقی حکومت کو مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار ہے اور اس میں دوبارہ ملازمت میں توسیع دینے کی بھی بات کی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آرٹیکل 255 جس پر آپ انحصار کررہے ہیں وہ تو صرف افسران کے لیے ہے۔ جس میں آپ نے ترمیم کی وہ تو آرمی چیف سے متعلق ہے ہی نہیں، یہ آرٹیکل تو صرف افسران سے متعلق ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ کل ہم نے جو نکات اٹھائے تھے آپ نے انھیں تسلیم کیا، اسی لیے انھیں ٹھیک کرنے کی کوشش کی گئی۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ہم نے ازخود نوٹس نہیں لیا، ریاض راہی کی درخواست پر ہی سماعت ہو رہی ہے، میڈیا کو اس بات کی سمجھ نہیں آئی۔ ہم نے تو مواد دے کر فیصلہ لکھا تھا۔ میڈیا کو سمجھ نہیں آئی۔ حکومت کے وکیل منصورعلی خان نے موقف اپنایا کہ آرٹیکل 255 میں ایک ایسا لفظ ہے جو اس معاملے کا حل ہے۔ اس آرٹیکل میں حالات کے تحت اگر ریٹائرمنٹ نہ دی جاسکے تو دو ماہ کی توسیع دی جاسکتی ہے۔ بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ اگر جنگ ہو رہی ہو تو پھر آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں عارضی تاخیر کی جا سکتی ہے۔ وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ رینک اور تقرری دو مختلف چیزیں ہیں۔ جنرل فوج کا ہی جرنیل ہوتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے سامنے سوال چیف کا ہے، جنرل کا نہیں۔ آرٹیکل243 کے تحت وزیراعظم کے پاس تعیناتی کا اختیار ہے لیکن ہم نے یہاں مدت کا معاملہ دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا ایک ریٹائرڈ فوجی افس کو آرمی چیف مقرر کیا جا سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پہلے قانون کو دیکھیں گے، ہمارے سامنے شخصیت نہیں قانون اہم ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے اس وقت تین ایشوز ہیں، پہلا ایشو تقرری کی لیگل حیثیت کا ہے، دوسرا ایشو تقرری کے طریقہ کار کا ہے، تیسرا ایشو تقرری کی وجوہات ہیں۔ وزیر اعظم کس کو آرمی چیف لگاتے ہیں یہ ہمارا ایشو نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کل کے بعد وقت نہیں رہ جائے گا پھر فیصلہ کرنا پڑے گا۔ حکومت کل تک اس معاملے کا حل نکالے، اگر معاملہ غیر قانونی ہوا تو پھر ذمہ داری ہم پر آ جائے گی۔