Sunday, September 8, 2024

سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں حاملہ خواتین کیلئے سہولیات کا فقدان

سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں حاملہ خواتین کیلئے سہولیات کا فقدان
September 25, 2022 ویب ڈیسک

اسلام آباد (92 نیوز) - سیلاب نے سندھ اوربلوچستان کے بیشترعلاقوں میں ایسی تباہی مچائی ہے کہ اس بیان بھی مشکل ہے مگرسب سے تکلیف دہ حالت ان ساڑھے چھ لاکھ خواتین کی ہے جن کے ہاں بچے کی ولادت متوقع ہے۔ سیلاب نے زیادہ ترصحت کے نظام کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، حکام نے اس جانب توجہ نہ دی تو سیلاب سے بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔

سیلاب کے ریلوں میں زندگی بھر کی جمع پونجی بہہ گئی۔ خوشیوں کے لمحے بھی سیلاب کے ریلوں کی نذر ہو گئے۔ بات جب ننھی جانوں کے دنیا میں آنے کی آئی تو بھوک، افلاس، بےبسی اور تنگدستی آڑے آگئی۔

سیلاب متاثرہ علاقوں میں جہاں اور بہت سے دکھ اور پریشانیاں ہیں وہیں ان خواتین کا مسئلہ سب سے زیادہ سنگین اور دردناک ہے جن کے ہاں آئندہ چند ہفتوں یا مہینوں میں بچے کی ولادت متوقع ہے، ایک سروے رپورٹ کے مطابق ملک کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں ساڑھے چھ لاکھ حاملہ خواتین ہیں جن میں 73 ہزارایسی ہیں جن کے ہاں آئندہ ماہ بچوں کی پیدائش متوقع ہے، مگرسیلاب کی بے رحم موجیں صحت کی بنیادی سہولیات کا نظام بھی بہا لے گئیں۔

زچگی کی حامل خواتین کا مسئلہ فوری توجہ طلب ہے، جن کے لیے تربیت یافتہ ہیلتھ ورکرز، طبی امداد، نومولود کی بہتر نگہداشت کے وسائل درکار ہوں گے، بدقسمتی سے اس مسئلے کی جانب حکام کی پوری توجہ نہیں جس سے آنے والے دنوں میں کئی انسانی المیے جنم لے سکتے ہیں۔

اب تک کی سروے رپورٹس کے مطابق سندھ میں سیلاب کے نتیجے میں ایک ہزار کلینکس اور اسپتال جزوی اور مکمل تباہ ہوچکے ہیں۔ بلوچستان میں 198 کلینکس اور اسپتال ایسے ہیں جو سیلاب کے بعد صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی سے قاصر ہیں۔

جو اسپتال اورکلینکس سیلاب دست برد سے محفوظ ہیں ان تک رسائی روڈ انفراسٹرکچر تباہ ہونے کے باعث بہت مشکل ہے،رپورٹس کے مطابق سیلاب میں 10 لاکھ مکانات منہدم ہونے کے سبب خواتین اور لڑکیوں کو صنفی امتیاز کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔