لاڑکانہ/ کوئٹہ (92 نیوز) - سندھ، بلوچستان میں سیلاب سے بستیاں ملبے کا ڈھیر، شہر تباہی کی داستان بن گئے۔
لاڑکانہ کے تین لاکھ گھروں میں سے دو لاکھ گھر متاثر ہوئے، کچھی اور گگھی کا سیلابی ریلا صحبت پور میں داخل ہوگیا۔ سرکاری دفاتر، عمارتیں، کاروباری مراکز اور آبادیاں زیرآب آگئیں۔
جعفر آباد میں گرڈ اسٹیشن میں سیلابی ریلا داخل ہونے سے بجلی کا نظام درہم برہم ہوگیا، ہزاروں افراد سیلابی پانی میں محصور ہوگئےـ قمبر شہر بھی بلوچستان سے آنے والے سیلابی ریلوں کی زد میں آگیا۔
ایف پی بند اور مین نارا ویلی ڈرین کے مقام پر پانی کے دباؤ میں اضافہ ہوگیا۔ کاچھو کو بھی خطرے نے لپیٹ میں لے لیا۔ سندھ میں اموات تین سو اکتالیس ہوگئیں، ایک ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
ادھر دوسری جانب سندھ میں مسائل سے نڈھال سیلاب متاثرین کا صبر جواب دے گیا، شکار پور میں متاثرین نے کھانا نہ ملنے پر ڈکھن انڈس ہائی وے پر احتجاج کیا۔
خیر پور میں ایم این اے نفیسہ شاہ متاثرین کے پاس گئیں تو چور چور کے نعرے لگ گئے۔ میرپورخاص میں سیلاب متاثرین کی خبرگیری کیلئے آئے وزیراعلی سندھ نے ملنا بھی گوارہ نہ کیا، متاثرین نے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے باہر دھرنا دے دیا۔
فیض گنج میں مہران ہائی وے پر متاثرین نے منظور وسان کا گھیراؤ کرلیا، میر پور خاص کی تحصیل جھڈو میں سیلابی پانی نہ نکلنے پر شہری مشتعل ہوگئے، اے سی آفس میں گھس کر توڑ پھوڑ، ہنگامہ آرائی کی۔ قمبر شہدادکوٹ میں سیلاب متاثرین نے کھانا سمیت دیگر سہولیات نہ ملنے پر نصیرآباد میں احتجاجی دھرنا دیا۔