سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کو ملزمان سے رقم کی رضاکارانہ واپسی کے قانون پر عملدرآمد سے روک دیا
اسلام آباد(92نیوز)سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کو ملزمان سے رقم کی رضا کارانہ واپسی کے قانون سے عملدرآمد سے روک دیا دس سالوں میں کتنے ملزمان نے پلی بارگیننگ کی؟ مکمل ریکارڈ پیش کیا جائے۔ چیف جسٹس کہتے ہیں کہ کرپٹ عناصر سے قسطوں میں رقم لے کر دوبارہ عہدوں پر بٹھا دیا جاتا ہےقانون بنانے والوں کو شرم نہیں آئی .
تفصیلات کےمطابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے چئیر مین نیب کو ملزمان سے رقم کی رضاکارانہ واپسی کے قانون پر عمل درآمد سے روک دیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ 10سالوں میں کتنے ملزمان نے پلی بارگیننگ کی ؟ پراسیکیوٹر جنرل نیب مکمل ریکارڈ طلب کریں۔کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ رضاکارانہ رقم کی واپسی قانون کے ذریعے کرپشن کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔ کرپٹ عناصر سے قسطوں میں رقم لے کر دوبارہ عہدوں پر بٹھا دیا جاتا ہے ۔ ایسے تو جو ملزم عدالت میں نہیں آنا چاہتا وہ تو نیب سے ہی مک مکا کر لیتا ہے . رضاکارانہ رقم واپسی کا قانون بنانے والوں کو شرم نہیں آئی ۔ دوسرے ممالک والے ہم پر ہنستے ہیں . قانون کے تحت تو بازار میں آواز لگائی جاتی ہے کہ کرپشن کرالو 10 کروڑ کی کرپشن کرنے والوں سے دو کروڑ لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔جسٹس عظمت سعید کہتے ہیں کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ نیب آرڈینیس کی شق 25 اے کی حمایت کرتے ہیں۔ حکومت خود بھی اس شق کو ختم کرنا نہیں چاہے گی کیونکہ وہ خود بھی اس معاملے میں شامل ہے۔اراکین پارلیمنٹ نے بھی نیب آرڈینس کی شق 25 سے استفادہ کیا ہے ۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ نیب قوانین میں ترامیم کے لئے جائزہ لئے رہے ہیں ۔عد الت نے کیس کی سماعت 7 نومبر کے لئے ملتوی کر دی ۔