اسلام آباد (92 نیوز) - نیب نے احد چیمہ کی ضمانت منسوخی سے متعلق درخواست سپریم کورٹ سے واپس لے لی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ برسوں تحقیقات کرنے کے بعد کہتے ہیں کیس نہیں بنتا، یہ سب کچھ نیب کی بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دئیے کہ آج اس کیس کو مثال بناتے ہوئے جرمانہ کیوں نہ کیا جائے؟
دوران سماعت نیب نے احد چیمہ کی ضمانت منسوخی کی تحریری استدعا کرتے ہوئے کہا کہ دوبارہ تحقیقات میں احد چیمہ کے خلاف نیب کا کیس نہیں بنتا ،جس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دئیے کہ تین سال ایک شخص کو اندر رکھا اور اب کہہ رہے ہیں کیس نہیں بنتا، کیا پہلی تحقیقات جانبدار تھیں؟ نیب اپنا کنڈکٹ دیکھے، جرمانہ کیوں نہ کیا جائے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جو پسندیدہ بن جاتا ہے، اسکا کیس واپس لے لیا جاتا ہے، چیئرمین نیب کے پاس اتنے لامحدود اختیارات کیسے ہیں؟
چیف جسٹس نے کہاکہ نیب میں ترامیم کر کے ضمانت دی گئی جو اچھا ہے، نیب کسی کو فوری گرفتار نہیں کرسکتا، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ بریگیڈیئر اسد منیر نے نیب کی وجہ سے خودکشی کی، بعد میں نیب نے انہیں ایماندار لکھا، ان لوگوں کی تلافی کون کرے گا؟ جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ نیب کے پاس ریفرنس تیار ہوتے ہیں بس مرضی ہوتی ہے کہاں کرنا کہاں نہیں، بلیو روم، ڈارک روم، یلیو روم نیب میں بنائے گئے ہیں، ہر رنگ کے کمرے کا الگ مقصد ہے، نیب کی بدقسمتی کہ میں اس نظام سے واقف ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال کی بہت شکایات ہیں، ایک گواہ کو بلا کر پانچ گھنٹے بٹھایا جاتا ہے، قانون کا غلط استعمال کرکے نیب کو سختی کا آلہ کار بنایا گیا، عدالت نے نیب کی کیس واپس لینے کی استدعا منظور کرتے ہوئے کہا کہ نیب اقدامات کی وجہ سے ادارے کا وقار اور عوام کا اعتماد متاثر ہوا۔