اسلام آباد (92 نیوز) - لانگ مارچ کے خلاف درخواست غیر مؤثر قرار دیدی گئی۔ سپریم کورٹ نے سینیٹر کامران مرتضیٰ کی درخواست نمٹا دی۔
دوران سماعت درخواست گزار کامران مرتضیٰ نے بتایا کہ لانگ مارچ سے معمولات زندگی متاثر ہو سکتے ہیں جس پر جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا حکومت نے احتجاج کو ریگولیٹ کرنے کا کوئی طریقہ کار بنایا ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ غیر معمولی حالات ہی میں عدلیہ مداخلت کر سکتی ہے۔ جب انتظامیہ کے پاس ایسی صورتحال کنٹرول کرنے کے وسیع اختیارات ہیں تو عدالت مداخلت کیوں کرے؟
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس قسم کے مسائل میں مداخلت سے عدالت کے لیے عجیب صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ آپ نے اپنی درخواست میں ایک آڈیو کا ذکر کیا ہے۔ اس آڈیو میں ہتھیار لانے کا ذکر ہے۔ آڈیو سچ ہے یا غلط لیکن اس سے امن و امان کی صورتحال خراب ہو سکتی ہے۔ کیا 25 مئی کے لانگ مارچ کے لوگوں کے پاس اسلحہ تھا؟ اگر صوبے اور وفاق کا رابطہ منقطع ہو جائے تو کیا عدالت مداخلت کر سکتی ہے؟۔ آپ ایک سینیٹر ہیں، پارلیمنٹ کو مضبوط کریں۔ اگر واضح طور پر آئینی خلاف ورزی کا خطرہ ہو تو عدلیہ مداخلت کرے گی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ آپ چاہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ ڈپٹی کمشنر کا کردار ادا کرے۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کا معاملہ لارجر بینچ میں زیر التوا ہے، جہاں فریقین نے یقین دہانی کی خلاف ورزی پر جواب دینا ہے۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ بینچ الگ سے لانگ مارچ کے معاملے میں مداخلت کرے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لانگ مارچ کا معاملہ تو اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی زیر التوا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا کبھی باقی احتجاجوں کے خلاف آپ عدالتوں میں گئے ہیں؟ ایک مخصوص جماعت کے لانگ مارچ ہی میں عدالت کی مداخلت کیوں درکار ہے؟
عدالتی استفسار پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے بتایا کہ اسلام آباد میں جلسے کی اجازت پر کیس اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے جس پر عدالت درخواست غیر مؤثر قرار دے کر نمٹا دی۔