Sunday, September 8, 2024

ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا کیس کل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی

ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا کیس کل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی
April 6, 2022 ویب ڈیسک

اسلام آباد (92 نیوز) ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا کیس کل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی ہو گیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے اسپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار اپوزیشن جماعتیں چاہتی ہیں نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا رولنگ میں دیا گیا حوالہ نظرانداز کیا جائے اور عدالت ان کے حق میں فوری مختصر حکمنامہ جاری کرے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی اجلاس کے منٹس کدھر ہیں، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں بظاہر الزامات ہیں کوئی فائنڈنگ نہیں، کیا اسپیکر حقائق سامنے لائے بغیر اس طرح کی رولنگ دے سکتا ہے؟ یہی آئینی نقطہ ہے جس پر عدالت نے فیصلہ دینا ہے، کیا اسپیکر آرٹیکل 95 سے باہر جا کر ایسی رولنگ کر سکتا ہے جو ایجنڈے پر نہیں، ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ میں نتیجہ اخذ کیا ہے، ڈپٹی اسپیکر نے کس مواد پر اختیار استعمال کیا، ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ کیا اسپیکر کو اختیار ہے کہ وہ ہاؤس میں ایجنڈے سے ہٹ کر کسیfacts پر جا سکے،  اگر ایسا کوئی مٹیریل موجود ہے؟ ایک آئینی طریقہ ہے جس کو بالکل سائیڈ لائن کر دیا جائے، کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ آپ نے یہ بھی بتانا ہے، فیصلہ کرنے سے پہلے جاننا چاہتے ہیں کہ سازش کیا ہے جس کی بنیاد پر رولنگ دی گئی۔

بابر اعوان نے مراسلے کی تفصیل پیش کی تو اٹارنی جنرل نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ فارن پالیسی کا معاملہ ہے، میں چاہتا ہوں کہ یہ بات ایک پولیٹیکل پارٹی کی جانب سے نہ آئے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا نکتہ بھی صحیح ہے،  ہم بھی فارن پالیسی کے معاملات میں نہیں پڑنا چاہتے۔

بابر اعوان نے ان کیمرہ بریفنگ کی استدعا کی تو عدالت نے مسترد کر دی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کابینہ نے وزارت خارجہ کی بریفنگ پر کیا فیصلہ کیا؟

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جن پر الزام لگایا گیا ان کیخلاف کیا ایکشن لیا گیا جس پر بابر اعوان نے جواب دیا کہ حکومت نے ان کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا،  وزیراعظم اور کابینہ نے احتیاط سے کام لیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر عمران خان کمیشن بنانا چاہتے ہیں تو مطلب ہوا کہ انہیں معلوم نہیں کون ملوث ہے؟۔ جس پر بابر اعوان نے جواب دیا کہ وزیراعظم کو جو علم ہے وہ ملکی مفاد میں بولنا نہیں چاہتے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا تحریک عدم اعتماد کو ووٹنگ کے علاوہ بھی نمٹایا جا سکتا ہے؟۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کو پیش کرنے کی منظوری سے پہلے نمٹایا جا سکتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ فلور کراسنگ ہر جماعت کیساتھ ہوتی رہی ہے،  سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہوگا کہ لوگ انہیں کیوں چھوڑ کر جاتے ہیں، وہی چہرے ہر بار ایک سے دوسری جگہ نظر آتے ہیں۔

بابر اعوان کے بعد صدر مملکت کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کر دیا، کہا کہ آرٹیکل 69 عدالت اور پارلیمان کے درمیان حد مقرر کرتا ہے، آرٹیکل 69 آگ کی دیوار ہے جسے عدالت پھلانگ کر پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ پارلیمنٹ آئین کی خلاف ورزی کرے کیا تب بھی مداخلت نہیں ہو سکتی جس پر علی ظفر نے جواب دیا کہ عدالت کو سپیکر کی رولنگ کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں ہے۔

جسٹس جمال خان نے پوچھا کہ اسپیکر کی رولنگ کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ اسپیکر کی رولنگ کو ہاؤس ختم کر سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا نکتہ دلچسپ ہے کہ اسپیکر کی رولنگ غلط ہو تو بھی اسے استحقاق ہے، رولنگ کے بعد اسمبلی تحلیل کرکے انتخابات اور عوام کے پاس جانے کا اعلان کیا گیا ہے، ن لیگ کے وکیل سے پوچھیں گے عوام کے پاس جانے میں کیا مسئلہ ہے؟۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی کہا کہ الیکشن میں جانے سے کسی کے حقوق کیسے متاثر ہو رہے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ سسٹم تعاون نہ کر رہا ہو تو آئینی عہدیدار اختیار استعمال کر سکتے ہیں، ڈپٹی اسپیکر چاہیں تو اجلاس باغ جناح میں بھی بلا سکتے ہیں،  پنجاب میں آئیڈیل حالات ہیں کہ عوام سے رجوع کیا جائے،  قومی اسمبلی کے ارکان کا کنڈکٹ بہت اعلی ہے۔ عدالت نے سماعت کل صبح 9:30 تک ملتوی کردی۔