اسلام آباد ہائیکورٹ کی حکومت کو لڑکیوں کی شادی کی کم سے کم عمر کا تعین کرنے کیلئے قانون سازی کی ہدایت
اسلام آباد (92 نیوز) - اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت کو لڑکیوں کی شادی کی کم سے کم عمر کا تعین کرنے کیلئے قانون سازی کی ہدایت کر دی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے 11 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔ حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ عدالتی معاون بیرسٹر ظفر اللہ خان کے مطابق نکاح کی کم سے کم عمر کے حوالے سے قوانین غیر واضح ہیں۔ عدالتی معاون نے قرآن کی سورۃ النساء کا حوالہ دیا جس میں شادی کیلئے بالغ ہونے کے ساتھ عقلمندی سے فیصلہ لینے کی صلاحیت رکھنا بھی ضروری ہے۔ بہت سے دیگر اسلامی ممالک نے شادی کیلئے کم سے کم عمر کے تعین کیلئے قانون سازی کر رکھی ہے۔ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کے تحت 16 سال سے کم عمر لڑکی کو نکاح میں دینا جرم ہے۔ حنفی مکتبہ فکر کے تحت شادی کیلئے لڑکی کی کم سے کم عمر 17 سال ہے۔ لڑکی کا بالغ ہونے کے ساتھ عقلمندی اور دانشوری سے اپنے حق میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہونا بھی لازمی ہے۔ قرآن میں لڑکیوں کی شادی کیلئے کم سے کم عمر کا تعین نہیں کیا گیا، تاہم کم سے کم عمر کا تعین کرنے سے روکا بھی نہیں گیا۔ حکومت ان تمام صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے لڑکیوں کی شادی کیلئے کم سے کم عمر کے تعین کیلئے قانون سازی کرے۔
درخواست گزار عبد الرزاق کیخلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی جس کے مطابق اس نے لڑکی کو اغوا کیا۔ لڑکی نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے بیان میں اعتراف کیا کہ اس نے عبد الرزاق سے اپنی مرضی سے نکاح کیا ہے۔ نکاح کے وقت لڑکی کی عمر 16 سال سے زائد تھی اس لیے چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کا نفاذ نہیں بنتا۔ درخواست گزار کی ایک لاکھ روپوں کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی جاتی ہے۔