Thursday, April 25, 2024

انقلاب اور جدت کے علمبردار فیض احمد فیض حیات ہوتے تو زندگی کی ایک سو گیارہویں بہار دیکھ رہے ہوتے

انقلاب اور جدت کے علمبردار فیض احمد فیض حیات ہوتے تو زندگی کی ایک سو گیارہویں بہار دیکھ رہے ہوتے
February 13, 2022 ویب ڈیسک

لاہور (92 نیوز) ترقی پسند نظریات اور انقلاب کو موتیوں کی خوبصورت لڑی میں پرو کر پیش کرنے والے شاعر فیض احمد فیض حیات ہوتے تو زندگی کی ایک سو گیارہویں بہار دیکھ رہے ہوتے۔

انقلاب، جدت اور شخصی آزادی کے علمبردار فیض احمد فیض کو کون بھول سکتا ہے۔ معاشرتی مساوات، انسانی حقوق کے علمبردار اور اردو کے عہدساز شاعر فیض احمد فیض تیرہ فروری انیس سو گیارہ کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔

فیض احمد فیض نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگلش اور اورنیٹل کالج لاہور سے ایم اے عربی کیا۔ اپنی شاعری اور نثری تحریروں میں فیض احمد فیض نے مظلوم انسانوں کے حق میں آواز اٹھائی اور انسان پر انسان کے جبر کو قبول کرنے سے انکار کیا۔

اپنے اشعار کے ذریعے جابر حکمرانوں کے مظالم کو عوام کے سامنے بے نقاب کرنے پر قید ہوئے اور جلا وطنی بھی کاٹی لیکن حق گوئی ترک نہ کی۔

فیض کی معروف تصانیف میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، شام شہر یاراں، مرے دل مرے مسافر اور نسخہ ہائے وفا شامل ہیں۔ ان کو علمی و ادبی خدمات پر متعدد عالمی اور قومی اعزازات سے نوازا گیا۔

فیض احمد فیض بیس نومبر انیس سوچوراسی کو جہاں فانی سے کوچ کر گئے اور لاہور میں آسودہ خاک ہیں۔ ہمیشہ جدت پسندی اور جمہوریت کی بات کرنے والے فیض احمد فیض کی ترقی پسند سوچ آج بھی زندہ ہے۔