اسلام آباد (92 نیوز) - سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کی تاریخ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔ 9 رکنی بینچ نے پی ڈی ایم جماعتوں، اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کردیئے۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے از خود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ نے کی۔
چیف جسٹس نے کہا صدرمملکت اور گورنرز چاہیں تو پرنسپل سیکرٹری کے ذریعے مؤقف دے سکتے ہیں۔ دوران سماعت ریمارکس دیئے آئین انتخابات کا وقت بتاتا ہے جو ختم ہورہا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے بہت سے فیکٹرز تھے جن کی بنیاد پر از خود نوٹس لیا، ہائیکورٹ میں لمبی کارروائی چل رہی ہے، الیکشن کے حوالے سے وقت جارہا ہے، صدرپاکستان نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا، دیکھنا ہے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار کس کو ہے۔ ہمارے سامنے لاہور ہائیکورٹ کا 10 فروری کا آرڈ تھا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی۔ دورخواستیں ہیں وہ اب آ وٹ ڈیڈڈ ہوگئی ہیں ، اس پر وضاحت کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس20فروری کو صدر کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد صورتحال بدل گئی۔ سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عملدرآمد کرانا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا میرے از خود نوٹس پر کچھ تحفظات ہیں، ہمارے سامنے دواسمبلیوں کے اسپیکر کی درخواستیں ہیں۔ یہ از خود نوٹس جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے نوٹ پر لیا گیا، اس کیس میں چیف الیکشنر کمیشنر کو بھی بلایا گیا جو کہ فریق نہیں۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کیس کے لیے وقت دینے کی استدعا کی، اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ اتنے لوگوں کو نوٹس ہوگا تو کل کیلئے تیاری مشکل ہو پائے گی۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کل ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود رہیں گے، کیس کی تفصیلی سماعت پیر کو کریں گے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہونگے، وقت جلدی سے گزر رہا ہے، ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التوا تھا مگر کوئی فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا انتحابات کا ایشو وضاحت طلب ہے، ہم اردارہ رکھتے ہیں اپ سب کو سنیں۔ ہم نے آئندہ ہفتے کا شیڈول منسوخ کیا ہے تاکہ یہ کیس چلا سکیں۔
شعیب شاہین نے کہا کہ ازخودنوٹس میں اگر فیصلہ انتخابات کرانے کا آنا ہے تو سب کو فائدہ ہوگا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر عدالت فیصلہ دیتی ہے تو سب سیاسی جماعتیں فائدہ حاصل کرینگی،
شعیب شاہین نے کہا کہ یہ ٹائم باؤنڈ کیس ہے اس میں انتخابات کرانے کا ایشو ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کچھ آڈیو سامنے آئی ہیں، جس میں عابد زبیری کچھ ججز کے حوالے سے بات کر رہے ہیں، ان حالات میں میرے رائے میں یہ کیس 184(3) کا نہیں بنتا،
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم نے اس کیس میں آئنی شک پر بات کر رہے ہیں، پہلا سوال یہ ہوگا کہ اسمبلی آئین کے تحت تحلیل ہوئی یا نہیں، دوسرا سوال یہ ہے کہ اسمبلی کو بھی 184(3) میں دیکھنا چاہیے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرے خیال میں تمام سیاسی جماعتوں کو سننا چاہیے، جمہوریت میں سیاسی جماعتیں حکومت بناتی ہیں۔
وکیل نے مؤقف اپنایا کہ سیاسی جماعتوں اور حکومت کو قانونی مؤقف دینا چاہیے اس لیے بلایا جاسکتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا یہ ایک اہم ایشو ہے، اس کا مقصد ٹرانسپرنسی اور عدالتوں پر اعتماد کی بات ہے۔
وکیل اظہر صدیق نے مؤقف پیس کیا ہائیکورٹ کا ریکارڈ منگوایا جائے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو بھی سنا جائے۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ جاری کی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آج ہم نوٹس کے علاوہ کچھ نہیں کرینگے۔
عدالت نے کہا کہ جب اسپیکرز نے درخواست دی اس وقت صدر اور الیکشن کمیشن میں خط وکتابت شروع ہوئی، درخواستوں میں گورنرز کی جانب سے الیکشن کا اعلان نہ کرنے کو چیلنج کیا گیا۔
وکیل نے موقف اپنایا کہ سیاسی جماعتوں اور حکومت کو قانونی مؤقف دینا چاہیے اس لیے بلایا جاسکتا ہے۔
جسٹس اطہر منااللہ نے کہا کیا ہائی کورٹ بار کی درخواست کے لیے منظوری ہے؟ شیعب شاہین نے بتایا کہ دس ایک سے قرارداد منظور کی ہے۔ الیکشن کا حکم کسی سیاسی جماعت کے خلاف نہیں ہوگا۔ یہ درخواست کسی کے خلاف نہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ فریقین کو آنے دیں اور بتانے دیں کہ الیکشن چاہتے ہیں یا نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا یہاں ایشو ہے کہ اسمبلی کی تحلیل اور عام انتخابات کیسے ہونگے، اسپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس میں پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کو نوٹس کیا گیا تھا، موجودہ کیس اسپیکر رولنگ سے مختلف ہے۔ پشاور ہائیکورٹ میں ایسے ہی کیس کی سماعت 28 فروری کو ہے، جمہوریت میں سیاسی جماعتیں حکومت بناتی ہیں۔
عدالت نے کہا کہ پشاور ہائیکورت میں ایسے ہی کیس کی سماعت 28 فروری کو ہے۔ ازخود نوٹس میں کچھ سوالات الیکشن کمیشن ایکٹ 27 اور 28 سے متعلق اٹھائے گئے۔
سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔