Saturday, April 20, 2024

دو دہائیوں میں افغانستان میں پیش آنیوالے اہم واقعات

دو دہائیوں میں افغانستان میں پیش آنیوالے اہم واقعات
February 29, 2020
اسلام  آباد  (ریسرچ ڈیسک) افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان اور امریکا کے درمیان آج دوحہ میں امن معاہدے پر دستخط  ہوئے ہیں، گذشتہ دو دہائیوں میں افغانستان میں   اہم واقعات پیش آئے ۔ گیارہ  ستمبر2001 میں  القاعدہ نے چار امریکی جہاز ہائی جیک کر کے تین کو امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹا گون سے ٹکرا دیا جب کہ چوتھا جہاز ریاست پنسلوانیا میں کھیتوں میں گر گیا۔ سات  اکتوبر2001میں  امریکہ نے برطانوی فوج کی مدد سے افغانستان میں مستقل آزادی کے نام سے فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا ، نومبر2001عبدالرشید دوستم کی فوج  مزار شریف سے طالبان کا قبضہ چھڑایا ، 11 نومبرکو ہرات 12 نومبرکوکابل اور14نومبر کو جلال آباد کو طالبان سے آزاد کروا لیے گئے۔14  نومبر کو اقوام  متحدہ نے ایک قرار داد پاس کی جس کے تحت افغانستان میں نگران افغان حکومت کے قیام میں اقوام متحدہ کا اہم کردار ہو گا۔ دسمبر2001میں اسامہ بن لادن کابل سے تورہ بورہ فرار ہو گئے، جہاں پر تین سے 17 دسمبر تک پہاڑوں میں افغان ملیشیا کے ساتھ ان کی جنگ جاری رہی جس میں کئی جنگجو مارے گئے ، پانچ دسمبر2001 میں طالبان کی کابل سے پسپائی کے بعد اقوام متحدہ نےحامد کرزئی کونگران حکومت کا صدر منتخب کیا گیا۔ نو دسمبر2001 میں طالبان نے قندھار میں بھی ہتھیار ڈال دیے جس سے افغانستان سے طالبان دور کا خاتمہ ہوگیا ،  ملا عمر شہر سے فرار ہو گئے ، مارچ 2002 میں پکتیا صوبہ میں طالبان اور القاعدہ کے 800 سے زائد جنگجوؤں کے خلاف آپریشن ایناکونڈا لانچ کیا گیا۔ جون2002 میں  حامد کرزئی کو ملک کی عبوری انتظامیہ کا سربراہ بنایا گیا جس کا انعقاد کابل میں کیا گیا تھا ، جنوری 2004 میں افغانستان کے 502 اراکین کی اسمبلی افغانستان کے آئین پر متفق ہو گئی ، نو اکتوبر2004 میں حامد کرزئی عام انتخابات میں اکثریت سے صدر منتخب ہو گئے۔ انتیس اکتوبر2004 میں اسامہ بن لادن کی ایک وڈیو ٹیپ اس وقت سامنے آئی  جس میں انہوں نے 11 ستمبر حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے آزادی کی جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا ،  23مئی2005 میں امریکی صدر بش اور افغان صدر کرزئی نے  ایک سٹریٹجیک معاہدے پر دستخط کیے جس کے بعد امریکہ کو افغانستان کی فوجی تنصیبات تک رسائی حاصل ہو گئی۔ سال  2008 میں نیٹو نے افغانستان کا کنٹرول افغان نیشنل آرمی کے حوالے کرنے کا اعلان کر دیا ، مئی 2007 میں طالبان کے اہم کمانڈر ملا داداللہ جنوبی افغانستان میں ایک آپریشن میں مارے گے ، 22اگست 2008 میں افغانستان اور اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے ہرات میں امریکہ کے گن شپ ہیلی کاپٹر کے ذریعے درجنوں اموات کی تصدیق کی۔ امریکہ کے نو منتخب صدر باراک اوبامہ نے 17 فروری 2009 کو  افغانستان میں 17 ہزار مزید فوجی بھیجنے کا اعلان کر دیا  ، 11 مئی 2009 میں سیکرٹری ڈیفنس رابرٹ گیٹس نے افغانستان میں جنرل ڈیوڈ میکرنن کی جگہ انسداد دہشت گردی کے ماہر جنرل میک کرسٹل کو ذمہ داری سونپ دی۔ یکم دسمبر2009 میں اوبامہ نے افغانستان میں مزید 30 ہزار فوج بھیجنے کا اعلان کر دیا  ، 23 جون2010 میں جنرل میک کرسٹل کو اختلافات کی بنیاد پر ذمہ داریوں سے سبکدوش کر کے ان کی جگہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کو افغانستان میں امریکی فوج کا کمانڈر مقرر کر دیا گیا۔ نومبر2010 میں لزبن میں  نیٹو اراکین اس بات پر متفق ہو گئے کہ 2014 کے اختتام تک افغانستان کے امن کی تمام تر ذمہ داری افغان فورسز کے حوالے کر دی جائے گی۔ بائیس جون 2011 میں صدر اوبامہ نے اعلان کیا کہ 2012 کے موسم گرما تک 33 ہزار امریکی فوج افغانستان سے واپس آ جائے گی۔ اوبامہ نے تصدیق کی کہ امریکہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں شریک ہے۔ سات اکتوبر2011 میں صدر اوبامہ نے 2014 تک تمام امریکی فوج کے انخلا کا اعلان کر دیا ، مارچ 2012 میں طالبان نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے قطر میں ایک دفتر قائم کیا ۔27 مئی2014 میں صدر اوبامہ نے افغانستان سے امریکی انخلا کا منصوبہ پیش کر دیا اور کہا کہ 2016 کے اختتام تک زیادہ تر امریکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی۔ اپریل 2017 میں صدر ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکہ نے ننگرہار میں سب سے طاقتور بم استعمال کیا۔ فروری 2019 میں امریکہ اور طالبان کے مابین دوحہ مذاکرات شروع ہوئے ، ان مذاکرات میں امریکہ کی جانب سے زلمے خلیل زاد اور طالبان کی نمائندگی ملا عبدالغنی برادر نے کی۔ سات ستمبر2019 میں طالبان کے حملے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد صدر ٹرمپ نے مذاکرات کا عمل روک دیا۔ اور 29 فروری 2020 میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک تاریخی معاہدے میں دستخط ہوئے۔ یہ معاہدہ کتنا نتیجہ خیز ہو گا؟کیا افغانستان میں گذشتہ 20 سال سے جاری خانہ جنگی کا خاتمہ ہوجائے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔