Thursday, September 19, 2024

کراچی: امن وامان کیس کی سماعت، رینجرز رپورٹ میں سنسنی خیز انکشافات، پولیس کی ناقص کارکردگی پر عدالت کا اظہار برہمی

کراچی: امن وامان کیس کی سماعت، رینجرز رپورٹ میں سنسنی خیز انکشافات، پولیس کی ناقص کارکردگی پر عدالت کا اظہار برہمی
March 7, 2016
کراچی (نائنٹی ٹو نیوز) سپریم کورٹ پاکستان کراچی رجسٹری میں کراچی امن وامان کیس کی سماعت کے دوران رینجرز کی جانب سے جمع کرائی جانے والی رپورٹ میں سنسنی خیز انکشافات کئے گئے۔ پولیس کی ناقص کارکردگی پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔ عدالت نے صوبائی حکومت سے رینجرز کی رپورٹ پر جواب طلب کر لیا۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کراچی امن وامان کیس کی سماعت کی۔ سماعت شروع ہوئی تو پولیس نے کراچی آپریشن کے دوران گرفتار ملزموں سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کر دی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ 2015 میں 159 افراد کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کراچی آپریشن میں ملزمان پکڑنے کا تو کہا جاتا اور بڑھ چڑھ کر اعدادوشمار بھی بتائے جاتے ہیں لیکن کتنے مقدمات درج ہوئے، کتنے ملزموں کو پکڑا گیا اور کتنے دہشت گردوں کیخلاف چالان عدالتوں میں پیش کیے گئے۔ پراسکیوٹر جنرل نے کہا کہ جواب داخل کرانے کے لئے کل تک کی مہلت دی جائے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دئیے کہ حکومت کا کام صرف اعدادوشمار پیش کرنا نہیں بلکہ ملزموں کو پکڑنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جس امن کا دعویٰ کر رہے ہیں وہ رینجرز کی وجہ سے قائم ہوا۔  آئی جی سندھ نے جواب دیا کہ کراچی آپریشن ٹیم ورک کا نتیجہ ہے۔ پولیس اور دیگر اداروں نے ایک دوسرے سے تعاون کیا۔ سماعت کے دوران جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ شہرمیں شارٹ ٹرم اغواء کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں۔ عدالت نے آئی جی سندھ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ اہم مقدمات سے آپ لاعلم ہیں۔ آپ کو وردی میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ کراچی میں آپریشن سے متعلق رینجرز نے کارکردگی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کر دی۔ رپورٹ کے مطابق 6 ہزار ملزموں کو پولیس کے حوالے کیا گیا۔ ان میں سے 11 سو ناقص تفتیش کے باعث 2015 میں رہا ہو گئے۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ایسا تاثر پیش نہ کریں کہ دو ادارے ایک دوسرے کے دشمن نظر آئیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو ایشو بنا کر امن وامان کا بیڑا غرق کیا جا رہا ہے۔ عدالت نے رینجرز کی رپورٹ پر حکومت سندھ سے تفصیلی جواب طلب کر لیا۔