پنجاب فرانزک ایجنسی ، 16سائنسدان نوکری چھوڑ چکے

لاہور(روزنامہ 92 نیوز) پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی میں کام کرنیوالے 32 سائنسدانوں میں سے 16 نوکری چھوڑ چکے ہیں جس کی وجہ سے ایجنسی کی کارکردگی متاثر ہونیکا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے جبکہ ڈائریکٹر جنرل سمیت ایجنسی میں کام کرنیوالے تین اعلیٰ عہدوں پر فائز سائنسدان دوہری شہریت رکھتے اور آپس میں قریبی عزیز بھی ہیں۔
روزنامہ 92 نیوزکی تحقیقات کے مطابق پنجاب حکومت نے 2009 میں ایجنسی کو فعال بنانے کیلئے مختلف ڈسپلن میں ایم ایس سی ، ایم فل اور پی ایچ ڈی ڈگری رکھنے والے سائنسدان بھرتی کئے جن کو 8کروڑ 70لاکھ کی لاگت سے امریکہ سے جدید تربیت دلوائی گئی تاکہ عالمی معیار کی فرانزک رپورٹس فراہم کی جاسکیں اور عدالتوں میں سزایابی کو یقینی بنایا جاسکے ۔
دستاویزات کے مطابق شکایات کا ازالہ نہ ہونے ، مناسب سروس کیریئر کے فقدان اور ورکنگ ماحول میں تناؤ کی وجہ سے 16 سائنسدان نوکری چھوڑ چکے ہیں جبکہ انکے متبادل افراد کو بھرتی نہیں کیا جاسکا۔
سائنسدانوں کی کمی پر انتظامیہ نے مختلف شعبہ جات میں غیرمتعلقہ افراد کو تعینات کررکھا جو متعلقہ ڈگری اور تجربہ نہیں رکھتے ۔ کرائم سین ایکسپرٹ کو ڈی این اے کے کام پر مامور جبکہ فنگر پرنٹ ایکسپرٹ کو کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ تعینات کیا ہوا ہے ۔
لیبارٹری کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ قصور کی ننھی زینب قتل اور زیادتی کے کیس میں ملزم عمران علی کا ڈی این اے کرنیوالا سائنسدان بھی ایجنسی چھوڑ گیا ۔ پنجاب حکومت نے ابتدائی طور پر ڈاکٹر اشرف طاہر جوڈی این اے اینڈ سیرالوجی ایکسپرٹ ہیں کو لیبارٹری قائم کرنے کیلئے یومیہ 750 ڈالر پر فرنزاک کنسلٹنٹ رکھا گیا تھا اسکے بعد 2011 میں ان کو کنٹریکٹ پر ڈائریکٹر جنرل تعینات کیا گیا اور 12 لاکھ تنخواہ دی گئی جو 2017 میں 20 لاکھ کردی گئی ۔
ڈاکٹر اشرف طاہر کے پاس امریکی شہریت ہے اور وہ تقریباً 75 سال کے ہیں اورملازمت شرائط و ضوابط کے مطابق سال میں چار دفعہ امریکہ جاتے ہیں۔ آ ڈیٹر جنرل نے ایجنسی کی آ ڈٹ رپورٹ2015-16 میں انکشاف کیا گیاتھا کہ پنجاب فرنزاک سائنس ایجنسی نے ڈاکٹر اشرف طاہر کو بطور کنسلٹنٹ رکھنے میں پنجاب حکومت کی کنسلٹنٹ سلیکشن گائیڈلائنز 2006 کی خلاف ورزی کی ۔
پنجاب حکومت نے ڈائریکٹر جنرل کی سفارش پر انکے حقیقی بھائی ڈاکٹر محمد سرور طاہر جو کیمیکل ایگزامینر ہیں کی خدمات بھی لیبارٹر ی کیلئے حاصل کی، ان کو ڈائریکٹر فرنزاک نارکوٹیکس، ٹوسیکالوجی اور ٹریس کیمسٹری کے شعبہ جات کی سرپرستی دی گئی تھی، یہ بھی غیر ملکی شہریت رکھتے ہیں اور انکی عمر 80 سال سے زائد ہے ، آڈٹ اعتراضات کے بعد انکی تعیناتی ختم کردی گئی تھی مگر وہ اب بھی غیر سرکاری طور پر ایجنسی میں کام کرتے ہیں اور سرکاری مراعات بھی رکھی ہوئی ہیں۔
پنجاب حکومت نے ڈائریکٹر جنرل کی سفارش پر ایک اور غیر ملکی شہریت رکھنے والے ڈاکٹر محمد امجد کی خدمات بطور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل بھی حاصل کررکھی ہیں۔ڈاکٹر امجد کو ایم پی ون سکیل کے برابر 8 لاکھ ماہانہ کا پیکیج دیا گیا۔
رابطہ پر ڈی جی ایجنسی سے بات ہوسکی نہ انہوں نے ایس ایم ایس کا جواب دیا۔