اسلام آباد: منحرف رکن اسمبلی کا ووٹ شمار ہوگا یا نہیں؟ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے فیصلہ سنا دیا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہ کرنے کا اپنا فیصلہ ہی کالعدم قرار دیا۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق نظرثانی اپیلیں منظو رکرلی گئیں۔
چیف جسٹس نے کہا جج کون ہوتا ہے یہ کہنے والا کہ کوئی رکن منحرف ہوا ہے؟ جمہوریت اسی لیے ڈی ریل ہوتی رہی کہ یہ عدالت غلط اقدامات کی توثیق کرتی رہی۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں عدالت میں کھڑے ہوکر دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ کیا ہمیں ڈرا کر فیصلے لیں گے؟
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق نظرثانی اپیلوں پر سماعت۔ وکیل علی ظفر نے اپنی درخواست واپس لیتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کے مطابق بینچ کی تشکیل درست نہیں۔ اس لیے وہ درخواست پر کارروائی جاری نہیں رکھنا چاہتے۔ دلائل دیئے کہ حکومت آئینی ترمیم لارہی ہے اور تاثر ہے کہ عدالت ہارس ٹریڈنگ کی اجازت دے گی۔ جس پر چیف جسٹس نے خبر دار کیا کہ اس بات پر آپ پر توہین عدالت لگ سکتی ہے۔ آپ کیوں ایک فیصلے سے گھبرا رہے ہیں؟ دلائل دیں شائد ہم یہ اپیلیں مستر کردیں۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا احتجاج: اسلام آباد میں فوج تعینات
جسٹس جمال مندو خیل نے پوچھا اگر صدارتی ریفرنس پر فیصلہ نہیں رائے ہے، تو اس پر عملدرآمد کیسے ہو رہا ہے؟ کیا صدر نے کہا تھا یہ رائے آگئی ہے، اب ایک حکومت کو گرا دو؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ دینے والے اکثریتی ججز نے رائے کا لفظ لکھا یا فیصلے کا لفظ استعمال کیا؟ جس پر علی ظفر بولے کہ یہ تو اس عدالت نے طے کرنا ہے کہ وہ رائے تھی یا فیصلہ۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ کل یہاں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کیخلاف فیصلہ دے کر دیکھیں۔ کیا ایسے ڈرا دھمکا کر فیصلہ لیں گے؟ علی ظفر نے کہا کہ جو کچھ باہر چل رہا ہے اس پر میں آنکھیں بند نہیں کرسکتا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عدالت معاملہ صدر مملکت کو بھیج دے کہ وہ فیصلہ کریں کس رائے سے متفق ہیں؟ جس کی ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے مخالفت کی۔ چیف جسٹس کے استفسار پر فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ اگر صدر مملکت رائے پر عمل نہ کریں تو عدالت کارروائی نہیں کرسکتی۔
عدالت نے سپریم کورٹ بار کی نظر ثانی کی اپیلیں متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ وجوہات تفصیلی فیصلے میں لکھی جائیں گی۔