لاہور: (ویب ڈیسک) بات کی جائے مقبوضہ جموں و کشمیر کی تو مودی سرکار کی جانب سے مرحلہ وار نام نہاد انتخابات کا انعقاد کیا جارہا ہے۔
بین الاقوامی سطح اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر متنازعہ علاقے ہیں کیوں کہ کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہوا تھا لیکن بھارت نے فوجی طاقت کے ذریعے جموں و کشمیر پر قبضہ بنائے رکھا ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر کا فیصلہ ہونا چاہیے لیکن بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کو خاطر خواہ نہ لاتے ہوئے قابض بنا بیٹھا ہے۔
بات کی جائے مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کی جانب سے کروائے جانے والے انتخابات میں منظم دھاندلی کا پروگرام بنالیا گیا ہے۔
بھارت کی مودی سرکار نے لیفٹیننٹ گورنر کو پبلک آرڈر، پولیس، آل انڈیا ایس وی سی، پوسٹنگ اور ٹرانسفرز سے متعلق اختیارات مزید بڑھا دیے گئے ہیں۔
لیفٹیننٹ گورنر کو مقبوضہ کشمیر میں 5 نشستیں دی گئی ہیں۔ جن میں سے 3 سیٹیں مہاجروں کیلئے اور 2 ہندو پنڈتوں کے لیے ہیں۔
مودی سرکار کی جانب سے کروائے جانے والے انتخابات میں ریاستی اسمبلی کیلئے بی جے پی کے لیے جوڑ توڑ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
دوسری جانب مودی سرکار نے چیف منسٹر کے اختیارات میں مزید کمی کردی ہے، بھارت کشمیر میں اسرائیل کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے اور مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
بات کی جائے حریت قیادت کی تو انتخابات سے قبل ہی حریت قیادت بھارتی حکومت کی قید میں ہے یا نظر بند ہے۔
حریت رہنما یاسین ملک کو بھی بھارت کی جانب سے سزا سنائے جانے کے بعد گرفتار کیا جاچکا ہے، آسیہ اندرابی بھی گرفتار ہونے والے رہنماؤں میں شامل ہیں۔
بھارت کے 5 اگست 2019 والے قانون کے بعد سے نئی پارٹیاں بھی بنائی گئیں ہیں تاکہ مسلم جماعتوں اور مسلم اکثریت کو کمزور کیا جاسکے۔
مودی سرکار نے حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے کرفیو نافذ کیا ہوا ہے ، مقبوضہ کشمیر میں اپوزیشن اور ووٹروں کو ڈرانے، دھمکانے کے لیے خطے 10 لاکھ فوجی تعینات کیے ہوئے ہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت آبادیاتی تبدیلیاں کے لیے نئے اور جعلی ڈومیسائل کے اجراء (کے ذریعے) وادی کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کررہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے انتخابات اس وقت کرفیوں جیسے ماحول میں جاری ہیں، جس کے باعث عالمی دنیا کو انتخابات کی شفافیت اور صداقت پر شکوک ہیں۔
بات کی جائے مردم شماری کی تو 2011 میں مقبوضہ کشمیر میں آخری مردم شماری کی گئی تھی، ہندوستانی حکومت 13 سال گزرنے کے بعد بھی تازہ مردم شماری کروانے میں ناکام ہے۔