اسلام آباد: (92 نیوز) عادل بازئی کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے عادل بازئی کو بطور رکن اسمبلی بحال کر دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایک حلقے کے عوام کو ڈس فرنچائز کرنے کا پیمانہ تو سخت ہونا چاہیے۔ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ بس بڑے صاحب کا خط آگیا تو بندے کو ڈی سیٹ کردو یہ نہیں ہو سکتا۔
عادل بازئی کی اسمبلی رکنیت بحال، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا، سپریم کورٹ کے مختصر فیصلے میں کہا گیا کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے نااہلی کا دیا گیا ڈیکلریشن کنفرم نہیں ہوسکتا، عادل بازئی کی این اے 262 سے اسمبلی رکنیت بحال کی جاتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، عدالت نے الیکشن کمیشن کے طریقہ کار پر سوالات اٹھا دیئے، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیس میں حقائق جانچنے کیلئے کمیشن نے کیا انکوائری کی؟ جسٹس عقیل احمد عباسی نے کہا کہ بس بڑے صاحب کا خط آگیا تو بندے کو ڈی سیٹ کردو یہ نہیں ہو سکتا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایک حلقے کے عوام کو ڈس فرنچائز کرنے کا پیمانہ تو سخت ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل! جسٹس جمال مندوخیل کے اہم سوالات
عادل بازئی کے وکیل نے موقف اپنایا کہ ایک دن معاملہ الیکشن کمیشن پہنچا۔ اگلے دن کارروائی شروع کر دی گئی۔ ہم بلوچستان ہائیکورٹ گئے کہ ہمیں متعلقہ دستاویزات تو دیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہہ دیا وہ دستاویز تو سیکرٹ ہیں۔
عدالت نے ڈی جی لا الیکشن کمیشن کو روسٹرم پر بلا لیا۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ کے پاس دو بیان حلفی آئے تھے۔ ایک جیتنے والا کہہ رہا ہے میرا ہے دوسرا کہتا ہے میرا نہیں۔ آپ نے کس اختیار کے تحت بغیرانکوائری ایک بیان حلفی کو درست مان لیا؟ کیا کمیشن یہ کہہ سکتا ہے کہ بس ایک بیان حلفی پسند نہیں آیا دوسرا آگیا؟ سپریم کورٹ نے عادل بازئی کو ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بطور رکن اسمبلی بحال کر دیا۔عدالت نے عادل بازئی کی اپیل بھی منظور کرلی۔
عدالتی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے این اے 262 سے عادل خان بازئی کو ڈی سیٹ کرنے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا ہے۔