ترکی میں فوج کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کی یہ پہلی مذموم کوشش نہیں

انقرہ (92نیوز)ترکی میں فوج کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کی یہ پہلی کوشش نہیں بلکہ ماضی میں بھی اس ملک کے اقتدار پر کئی بار فوجی قبضہ ہوا ۔ لیکن فوج کے لئے سڑکوں پر نکل کر واپس پلٹنے کا یہ پہلا ناکام تجربہ ہے۔
تفصیلات کےمطابق طاقت کے زور پر حکومت پر قبضے کی یہ کوشش نئی نہیں بلکہ ترکی کی عوام نے یہ مناظر بار ہا دیکھے ہیں۔ ترکی میں سب سے پہلا مارشل لا 1960 میں لگایا گیا ، جب حکومت اور اپوزیشن میں ماڈرن اور اسلامک ریفارمز پر بڑھنے والے تنازعات نے فوج کے لئے راہ ہموار کی جس کے بعد صدر اور وزیر اعظم سمیت کئی حکومتی ارکان کو گرفتار کیا گیا۔ 1971 میں دوسری بار فوج نے حکومت کا تختہ الٹا اور اس کے لئے ملک کے معاشی حالات کو جواز بنایا گیا۔ 1980 میں فوج کو ایک بار پھر حکومت گرانے کا موقع ملا یہ وہ وقت تھا جب ترکی کی حکومت دائیں اور بائیں بازو کی کھینچا تانی کے باعث مشکل وقت سے گزر رہی تھی ۔ 1997 میں فوج چوتھی بار اقتداد پر قابض ہوئی اور کچھ سیاسی جماعتوں کی حمایت سے اپنی حکومت قائم کر لی ۔ تختے گرانے کی یہ کہانی اسی پر ختم نہیں ہوئی بلکہ 2003 میں ترک وزیرعظم طیب اردوان کے خلاف بھی سازشیں شروع ہوگئیں لیکن اس بار فوج اپنی مقصد میں کامیاب نہ ہوسکی الٹا خود ہی قانون کا سامنا کرنا پڑ گیا ۔ سازش میں ملوث ہونے پر 300 فوجیوں کو عدالت سے سزائیں ملیں اردوان حکومت کی جانب سے کی جانے والی اس قانونی چارہ جوئی کے بعد حکومت کو گزشتہ شب فوجی بغاوت کا سامنا کرنا پڑ گیا لیکن اس بار یہ کوشش فوج کے لئے ڈراونا خواب ثابت ہوئی ۔ باغی فوجیوں کے لئے سڑکوں پر نکلنے کے بعد ناکام پلٹنے کا یہ پہلا تجربہ تھا ۔