Sunday, September 15, 2024

برطانوی ادارے نے پاکستانی موبائل فونز، انٹرنیٹ صارفین کی جاسوسی کی: سنوڈن

برطانوی ادارے نے پاکستانی موبائل فونز، انٹرنیٹ صارفین کی جاسوسی کی: سنوڈن
October 6, 2015
لندن (ویب ڈیسک) امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن نے انکشاف کیا ہے کہ برطانوی خفیہ ادارہ جی سی ایچ کیو پاکستان میں سمارٹ فونز اور انٹرنیٹ صارفین کی جاسوسی کرتا رہا ہے اور برطانوی نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ یہ جاسوسی برطانوی حکومت کی اجازت سے کی جاتی رہی۔ تفصیلات کے مطابق امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے افشا کی گئی ایک دستاویز کے مطابق برطانوی خفیہ ادارہ جی سی ایچ کیو پاکستان میں کمیونی کیشن ڈیٹا کی نگرانی کرتا رہا ہے۔ ایڈورڈ سنوڈن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے ڈیٹا تک رسائی کے لیے سی این ای یا کمپیوٹر نیٹ ورک ایکسپلوائٹیشن کا استعمال کیا گیا اور ٹیکنالوجی کمپنی ”سسکو“ کے راو¿ٹرز کو ہیک کر کے معلومات حاصل کی گئیں۔ ایڈورڈ سنوڈن کا کہنا تھا کہ سی این ای بنیادی طور پر ڈیجیٹل جاسوسی ہے جس میں آپ ان چیزوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو آپ کی ملکیت نہیں۔ سنوڈن کے مطابق جاسوسی مقاصد کے لئے جی سی ایچ کیو اور این ایس اے جیسے خفیہ ادارے نیٹ ورک سروس پروائیڈر کے علم میں لائے بغیر خفیہ طور پر ان نیٹ ورکس سے جڑے ایسے آلات تک مکمل رسائی پا لیتے ہیں جن میں ان کی دلچسپی ہو۔ سنوڈن نے یہ بھی بتایا کہ جدید سمارٹ فونز کو سکیورٹی ایجنسیوں کی مکمل رسائی سے محفوظ رکھنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے اور ایسے فون استعمال کرنے والے اپنی معلومات کے بچاو¿ کے لیے نہ ہونے کے برابر اقدامات ہی کر سکتے ہیں۔ سنوڈن نے دعویٰ کیا کہ برطانوی خفیہ ادارہ جی سی ایچ کیو یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ فون کے مالک کے علم میں آئے بغیر فون ہیک کر سکے۔ جی سی ایچ کیو ایک انکرپٹڈ تحریری پیغام بھیج کر کسی بھی سمارٹ فون کو تصاویر کھینچنے یا اس پر کی جانے والی بات چیت سننے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ سنوڈن نے کہا کہ جی سی ایچ کیو یا امریکی ایجنسی این ایس اے چاہتے ہیں کہ دنیا میں کسی بھی شخص کے فون کے اصل مالک وہ ہوں۔ جب خفیہ ادارے کسی صارف کے فون تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں تو پھر وہ جان سکتے ہیں کہ مذکورہ فرد کسے کال کرتا ہے۔ کیا پیغامات بھیجتا ہے اور انٹرنیٹ پر کہاں کہاں جاتا ہے۔ سنوڈن کی طرف سے جاری کی گئی دستاویزات میں یہ نہیں بتایا گیا کہ پاکستان سے ان معلومات کے حصول کا مقصد کیا تھا۔ برطانوی حکومت نے سنوڈن کے ان دعوو¿ں پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔