کینیڈا: (تحریر: ابریز رومی) آوازوں اور سطور کا اک بازار ہے کبھی کسی طرف آوازیں دوڑتی ہیں تو کہیں لفظ حلق تک آتے خشک ہو جاتے ہیں۔ تیسری دنیا کی انسانی آنکھ کے پاس اور بچتا ہی کیا ہے؟اور ادھر سے اپنے لئے سطر بچا کر جان بچانا کا یدِطولٰی قسمت سے میسر آبھی جاۓ تو ہمت جواب دے دیتی ہے۔
لوک تاریخ میں دریاۓ سرسوتی/ہاکڑہ کے کنارے موجود خود کو آپ درگاہ کہنے والے دور جدید کے عظیم پنجابی شاعر علی ارشد میر سے میں نے شکوے بھرا سوال کیا ابھی آوازیں لفظوں کا جال بن ہی رہی تھیں تو علی ارشد میر کا ہنسوں جیسا دانشور ،عظیم افسانہ نگار بھائی علی اشرف بھی آن پہنچا لوک قصوں میں سرسوتی زیر زمین ان دونوں بھائیوں سے بغل گیر ہونے آتی ہے عجیب لوگ ہیں ایک کو مادری زبان کی محبت میں میڈیکل کالج سے نکالا گیا تو دوسرا جبر کے عہد میں مزاحمت کی آواز ہونے پر پروفیسر ہونے کے باوجود کئی بار ضلع بدر ہوا۔ اشرف یار توں دس !اج دا مانو کج پچھدا اے۔
ساڈے اکھر گھوڑے لوبھ دے
بادشاہاں دے وس
علی اشرف نے شعر دوہراتے میری طرف دیکھا جیسے میں کسی غلط جگہ ہوں بطور صحافی یہ شعر میری خوداحتسابی کے لیے کافی تھا علی اشرف جو قانون کا زیرک طالب علم بھی رہ چکا میں اسکے آگے مبہوت ہوکر خود کلامی کرنےلگا عدلیہ اور معاشرے ایک دوسرے کی نوک پلک سنوارتے ہیں ۔معلوم ہے نہ کہ
عدلیہ بحالی تحریک کے بعد ایک خوش فہمی اتنی ضرور تھی کہ تین منٹ سے کم عدالت عالیہ یا عظمٰی کی پیشی میں پی سی او ججز کے بعد والی بھرتی میں کچھ کفن باندھے منصف بھی نظر آئیں گے مگر بیچارے بیشتر منصف اسی مٹی سے اٹھے اور اسی کی ضرورتوں کی نذر ہوگئے۔ کچھ سوانگ بھرتے رہے اور ہم اسے کرامت سے تشبیہ دیتے رہے اب بھی کئی ایک عوام یا مظلوم سے زیادہ حاکم میل کے طرفدار ہیں کہ کب پروانہ آۓ اور سنیارٹی کے پرخچے اڑاتے آگے بڑھ جائیں۔ایچی سن کالج کے شجاعت بھرے استاد ہی جب صدا نہ بلند کرے تو کوئی کیا میرٹ کی بات کرے حق تلفی پر خامشی کا درس دینے والے مدرس کسی کو کیا حق دیں گے؟اینا سفوورا نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مزارات کی تگ ودو میں جو قبائلی دانش کا پوسٹ مارٹم کیا وہ ہماری اجتماعی فکر کا بطور معاشرہ مظہر ہے ۔ ریاستی ضرورتوں کے پیش نظر معاشی و معاشرتی ساحلوں پر لنگر انداز ہونے کی اجازت ملنے پر بھی منصف ٹائی ٹینک اس بار ساحلوں پر ہی ڈوب رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ چوروں کو مور پڑ گئے۔ ذاکر سے شنگھائی تک منصف پر کسی کا اتفاق نہیں ویسے بھی مسیحا و منصور کو بنانے میں دست قدرت رکھنے والے کب مانتے ہیں؟ ریاست جتھا بند ہو کر آئی سی یو میں پڑے نظام عدل پر حملہ آور ہے ۔قانون کا طالب علم یاد رکھے کہ جبر کے جس سکرپٹ پر میڈیائی پٹوار خانہ کام کر رہا ہے اسکے سہولت کار جنیئیاتی سطح پر انہی نسلوں کے نمائندہ ہیں جو ہر حملہ آور کے سامنے سرنڈر کرکے نو آبادیاتی عہد میں داخل ہوئیں دوسری طرف تاجروں کی جماعت کے کالے کوٹ اور کرتوت سب کے سامنے ہیں ۔ان پر آن پڑے تو میر کا عوامی مزاحمتی ترانہ"گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو" ٹھیک۔۔۔ورنہ یہی آواز انکے دور میں جرم بن جاۓ ۔ منصفو! اس نظام کو اس لئے ٹیک دیتے رہے کہ تم اسکی پیداوار ہو اور اسکے نوازنے پر روساء کا حصہ بن گئے عوام تو اچھوت ٹھہرے کبھی زینب کی طرح مارے گئے کبھی راہ چلتے امریکی ایجنٹ کے ہاتھ،کبھی ماڈل ٹاؤن تو کپھی اوکاڑہ ٹول پلازہ، کبھی موٹروے تو کبھی فیکٹریوں میں جلاۓ گئے تو کبھی کنسرٹ میں مارے گئے تو کبھی تعلیمی اداروں کے تہہ خانوں میں ہوس کا شکار ہوۓ کبھی زندان میں مارے گئے تو کبھی ریاستی گولی مقدر بنی تو کبھی رئیس کے بیٹے،بیوی، بہو، بیٹی نے نو آبادیاتی قانون کی کتاب میں بیٹھ کر ہماری غربت کو بیچ کچہری خرید لیا مگر مجال ہےکہ دھرے گئے ہوں معاشرتی و معاشی غارتگر! دورخے بکاؤ پیشہ وروں سے باز مرواۓ اور شہباز کہلواۓ ملکی زرداروں کی رنگ برنگی کاروں کو سیاسی بصیرت کہا۔ کہیں کہیں تو اب پنجابی عوام مظلوم دکھائی دیتی ہے جہاں آۓ روز انکے مزدوروں کی لاشوں کا اندراج البر کامیو کے ناول طاعون میں موجود جنس کی مثل نہیں ہوگا جبکہ سرمایہ کار کے سرماۓ کو تحفظ دینےکے لئے نسلی بٹیرے اکٹھے ہوچکے ہیں اب تو ہر جگہ مرد ہراساں ہورہے ہیں وہ اپنی شکایت معاشرتی قدروں کی وجہ سے کسی 15 پر رجسٹر نہیں کروا پا رہے ویسے بھی کسی کی ماں بہن بیٹی اتنی سستی نہیں اور سرخ پہیہ سفید گاڑی کا بے حسی کے نشان چھوڑ بھی دے تو پہیہ تو چلنا چاہیے۔
مگر ان کتابوں کا کیا کیا جاۓ جو آۓ روز عوامی تاریخ کے ساتھ اکساتی ہے کہ نہ اس پر کوئی دعوی ہوتاہے اور نہ کوئی کمبخت ڈیفمیشن! جہاں غیر اخلاقی مواد کی تشہیر کی برملا دھمکی پردھانگی کی سیڑھی ہو جہاں بیٹیاں ،بیٹے،بہنیں اداروں میں ہوس کا نشانہ بنیں اور معاشرتی انصاف کا تقاضہ کرنے والوں کے لیۓ یہ واقعات نشانے عبرت بنا دیے جائیں تو وہاں عوام اپنا احتجاج کیسے ریکارڈ کروائیں کیسے انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ آوازیں ہیں مگر کون پہلا پتھر مارے۔ابابیل سے شکوہ کیا غاصب صدیوں سے ایسا ہے منافقت ایک اور الگ سیٹ ہے۔ میں چپ ہو گیا اور آواز آئی۔۔۔۔
لمبڑاں دے ڈیرے دےاُتے
کُچھڑاں ہریاں ہوئیاں
پر لمبڑاں دیاں کڑیاں جمن
کُتیاں مریاں ہوئیاں
عجیب سکتہ تھا علی اشرف کا افسانہ حلاج دی روح اور نظم عدالتی وچولا مجھے کثافت سے بچانے کے لئے بیاس سےراوی تک چھوڑنے آۓ ۔دم رخصت ہاتھ ہلاۓ تو علی ارشد میر کے مصرعوں نے ہوا کو ارتعاش بخشا۔۔۔
کہو منت خوددرگاہ بھی
کہو روگ بھی آپ اُپا بھی